Maktaba Wahhabi

519 - 702
ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر وہ خود اپنی طرف سے بالغ ہونے کے بعد عقیقہ کرنا چاہتاہے توجائز ہے۔ امام شافعی سے منقول ہے کہ بڑے آدمی (بالغ) کا عقیقہ نہیں ہوتا۔ ایک شافعی عالم بندنیجی کہتے ہیں کہ میں نے بکرے کے علاوہ کسی جانور کے جواز یا عدم جواز سے متعلق امام شافعی کا قول نہیں دیکھا۔ البتہ ہمارے ہاں بکری کے علاوہ کوئی دوسرا جانور عقیقے میں ذبح کرنا جائز نہیں ، لیکن جمہور علما اونٹ یا گائے ذبح کرنے کے قائل ہیں ۔ چنانچہ علامہ احمد بن محمد قسطلانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں : ’’وھي سنۃ مؤکدۃ، وإنما لم تجب کالأضحیۃ بجامع أن کلا منھا إراقۃ دم بغیر جنایۃ ‘‘ انتھی۔ کذا في القسطلاني۔[1] [یہ سنت موکدہ ہے۔ یہ قربانی کی طرح واجب نہیں ہے، کیونکہ دونوں میں بغیر جنایت کے خون بہانا ہے] نیز فرماتے ہیں : ’’والعقیقۃ کالأضحیۃ في جمیع أحکامھا من جنسھا وسنھا وسلامتھا، والأفضل منھا، ونیتھا، والأکل والتصدق، وسن طبخھا کسائر الولائم إلا رجلھا فتعطی نیئۃ للقابلۃ، لحدیث الحاکم، وبحلوا تفاؤلا بحلاوۃ أخلاق الولد، وأن لا یکسر عظمھا تفاؤلا بسلامۃ أعضاء الولد فإن کسر فخلاف الأولی، وأن تذبح سابع ولادتہ‘‘ انتھی، کذا في القسطلاني[2] [عقیقہ تمام احکام: جنس، عمر، عیوب سے سلامتی، اس سے افضلیت، نیت، کھانے اور صدقہ کرنے میں قربانی کی طرح ہے اور اس کا پکانا تمام دعوتوں کی طرح مسنون ہے، سوائے ٹانگ کے، کہ وہ مستدرک حاکم کی روایت کی بنا پر کچی ہی دائی کو دے دی جائے اور بچے کے اعضا کی سلامتی کے لیے نیک فالی کے طور پر گوشت بناتے وقت ہڈیاں نہ توڑی جائیں ، لیکن توڑے تو خلاف اولیٰ ہے اور ولادت کے ساتویں دن یہ جانور ذبح کیا جائے]
Flag Counter