Maktaba Wahhabi

518 - 702
التفات نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ کتاب و سنت اور تعامل میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے] اگر ساتویں دن سے پہلے یا بعد میں عقیقہ کریں تو عقیقہ نہ ہوگا۔ اگر بچہ پہلے مرگیا تو عقیقہ ساقط ہو جائے گا۔ چنانچہ احمد بن محمد قسطلانی ’’ارشادالساری‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’قولہ: یذبح عنہ یوم السابع۔ تمسک بہ من قال: إنھا مؤقتۃ بالسابع، فإن ذبح قبلہ لم تقع الموقع، و إنھا تفوت بعدہ، و بہ قال مالک، و قال أیضاً: إن مات قبل السابع سقطت‘‘[1] انتھی [حدیث میں وارد الفاظ ’’ساتویں دن ذبح کیا جائے گا‘‘ اس میں ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ عقیقہ ساتویں دن کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگر پہلے ذبح کرے تو درست نہیں اور ساتویں دن کے بعد بھی درست نہیں ۔ امام مالک کا یہی موقف ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اگر بچہ ساتویں دن سے پہلے فوت ہوجائے تو اس کا عقیقہ ساقط ہوجاتا ہے] شیخ الاسلام علامہ ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن محمد الشہیر بابن الحاج المالکی نے اپنی کتاب مدخل میں اس مسئلے پر تفصیل سے تحقیق کی ہے، لیکن ان کی پوری عبارت نقل کرنے سے کتاب طویل ہو جائے گی۔[2] امام شافعی کے نزدیک عقیقہ سنت مؤکدہ ہے، جس میں ساتویں دن لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی۔ اگرچہ عقیقہ قربانی کی طرح واجب نہیں ، پھر بھی عقیقے کے جانور میں اس کے جنس، عمر اور عیب سے سلامتی وغیرہ میں قربانی کے جانور جیسی شرائط کا لحاظ کرنا چاہیے۔ ذبح کے وقت عقیقے کی نیت کرے اور اس کا گوشت خود کھائے ، اپنے اہل و عیال کو کھلائے اور حاجت مندوں پر صد قہ کرے۔ سارا گوشت پکائے، مگر ایک ران دائی (خادمہ) کے لیے چھوڑ دے۔ بہتر ہے کہ ذبیحہ کی ہڈی نہ توڑے اور اگر توڑے تو خلاف اولیٰ ہے۔ ایک شافعی عالم امام رافعی فرماتے ہیں کہ عقیقے کا وقت بچے کی پیدایش سے اس کی بلوغت تک ہے۔ کسی نے اگر اس کی طرف سے عقیقہ کرنے کا ارادہ کر رکھا ہو تو اس کے بالغ ہونے کے بعد ساقط
Flag Counter