دو بکریوں کا عقیقہ کیا جائے اور ایک بکری لڑکی کی طرف سے عقیقے میں ذبح کی جائے۔ امام مالک اور ان کے ہم خیال لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے کے متعلق روایات میں اختلاف ہے، اس لیے عمل متوارث اور قربانی پر قیاس کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کی عقیقے میں برابری کرنا راجح ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ ’’اور عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔‘‘ سنت کی پیروی کرتے ہوئے اور اس لیے کہ یہاں امر کو استحباب پر محمول کیا جائے گا، کیونکہ یہ اصول ہے کہ جب امر کو وجوب پر محمول کرنا درست نہ ہو تو اسے استحباب پر محمل کیا جائے گا۔ لیکن لیث، ابو زناد اور داود ظاہری کا موقف یہ ہے کہ عقیقہ واجب ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ ’’عقیقے پر ہمیشہ سے لوگوں کا عمل رہا ہے۔‘‘ اس لیے اسے ترک کرنا مناسب نہیں ۔ اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو اسے منسوخ یا بدعت سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ اگر وہ منسوخ ہوتا تو صحابہ کرام اور ان کے بعد والے لوگ اس پر عمل نہ کرتے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہے: بچہ اپنے اپنے عقیقے کے ساتھ رہن رکھا ہوتا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کے بال مونڈے جائیں ۔ ’’جو اپنے بچے کی طرف سے عقیقہ کرتا ہے تو یہ قربانی کی طرح ہے۔‘‘ لہٰذ اس میں بکری، اونٹ اور گائے کو ذبح کرنا بھی جائز ہے، برخلاف اس کے جو گذشتہ احادیث میں بکری کا ذکر آنے کی وجہ سے اسے صرف بکری پر محدود کرتا ہے، حالانکہ طبرانی میں حضرت انس سے مرفوعاً مروی ہے کہ عقیقے میں اونٹ، گائے اور بکری ذبح کی جائے گی۔
’’امام مالک فرماتے ہیں کہ عقیقے میں ایسا جانور ذبح نہیں کیا جائے گا، جس کی آنکھ، ٹانگ اور سینگ میں کوئی عیب ہو۔‘‘ نہ ایسا جانور جو بیمار ہو۔ اس جانور کا گوشت اور چمڑا فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ عقیقے والے جانور کی گوشت بناتے وقت ہڈیاں توڑنا درست ہے، کیونکہ اہل جاہلیت ایسا کرنا ناروا خیال کرتے تھے اور گوشت بناتے وقت جوڑوں سے گوشت کاٹا کرتے تھے، چنانچہ ہمارے لیے ایسے باطل عمل کی اتباع جائز نہیں ۔ اس قول ’’گوشت میں ہڈیاں نہ توڑی جائیں ، کیونکہ اس میں بچے کی سلامتی کے لیے نیک فالی ہے‘‘ کی طرف
|