Maktaba Wahhabi

516 - 702
وحملا لأمرہ علی الاستحباب لأن القاعدۃ أن الأمر إذا لم یصلح حملہ علی الوجوب حمل علی الندب، وقال اللیث وأبو الزناد وداود: واجبۃ، (وھي من الأمر الذي لم یزل علیہ الناس عندنا) فلا ینبغي ترکھا، و فیہ رد علی من زعم نسخھا، ومن زعم أنھا بدعۃ، إذ لو نسخت ما عمل بھا الصحابۃ فمن بعدھم بالمدینۃ، و قد قال صلی اللّٰهُ علیه وسلم : (( الغلام مرتھن بعقیقتہ، یذبح عنہ یوم السابع، و یسمی، و یحلق رأسہ )) رواہ أحمد وأصحاب السنن والبیھقي عن سمرۃ، وصححہ الترمذي والحاکم۔ (فمن عق عن ولدہ فإنما ھي بمنزلۃ النسک) الھدایا (و الضحایا) فتجوز بالغنم والإبل و البقر، خلافا لمن قصرھا علی الغنم، لورود الشاۃ في الأحادیث السابقۃ، لکن روی الطبراني عن أنس مرفوعاً: (( یعق عنہ من الإبل والبقر والغنم )) [1] (لا یجوز فیھا عوراء) بالمد، تأنیث أعور، (ولا عجفاء) بالمد، الضعیفۃ ولا مکسورۃ القرن ولا مریضۃ، ولا یباع من لحمھا شيء، ولا جلدھا، و یکسر عظامھا جوازا، تکذیبا للجاھلیۃ في تحرجھم من ذلک، و تفصیلھم إیاھا من المفاصل إذ لا فائدۃ في ذلک الاتباع الباطل، ولا یلتفت إلی من یقول: فائدتہ التفاؤل بسلامۃ الصبي، و بقاؤہا، فلا أصل لہ من کتاب ولا سنۃ ولا عمل‘‘[2] انتھی ملخصا [مالک فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے نزدیک یہ ہے کہ عقیقے میں ایک ایک بکری مذکر و مونث کی طرف سے ہو۔‘‘ قربانی پر قیاس کرکے، کیونکہ اس میں مذکر و مونث دونوں برابر ہیں ، برخلاف اس کے جو کہتا ہے کہ لڑکے کی طرف سے عقیقے میں دو بکریاں ذبح کی جائیں ۔ امام ابن رشد کہتے ہیں کہ جس نے یہ عمل کیا اس نے غلط نہیں ، بلکہ درست کام کیا۔ سنن ترمذی میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لڑکے کی طرف سے
Flag Counter