امام مالک نے موطا میں فرمایا ہے:
’’الأمر عندنا في العقیقۃ أن من عق فإنما یعق عن ولدہ بشاۃ شاۃ، الذکور والأناث، ولیست العقیقۃ بواجبۃ، و لکنھا یستحب العمل بھا، وھي من الأمر الذي لم یزل علیہ الناس عندنا، فمن عق عن ولدہ فإنما ھي بمنزلۃ النسک و الضحایا، لا یجوز فیھا عوراء ولا عجفاء، ولا مکسورۃ القرن، ولا مریضۃ، و لا یباع من لحمھا شيء، ولا جلدھا، وتکسر عظامھا، ویأکل أھلھا من لحمھا، ویتصدقون منھا‘‘[1] انتھی
[ہمارے نزدیک عقیقے میں عمل یہ ہے کہ جو عقیقہ کرے تو وہ اپنے بچے کی طرف سے ایک ایک بکری ذبح کرے، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ ہمیشہ سے ہمارے ہاں لوگوں کا اس پر عمل رہا ہے۔ یہ عقیقہ قربانی کے برابر ہے، لہٰذا اس میں کانا، دبلا، سینگ ٹوٹا ہوا، بیمار جانور جائز نہیں ، اس کا گوشت بیچنا جائز ہے اور نہ اس کا چمڑا۔ اس کی ہڈیاں توڑنا درست ہے۔ گھر والے اس کا گوشت کھا سکتے ہیں اور صدقہ کرنا بھی درست ہے]
علامہ محمد بن عبد الباقی زرقانی نے شرح موطا میں فرمایا ہے:
’’قال مالک: (الأمر عندنا في العقیقۃ أن من عق فإنما یعق عن ولدہ بشاۃ شاۃ، الذکور والإناث) قیاسا علی الأضحیۃ، فإن الذکر والأنثیٰ فیہا متساویان خلافا لمن قال: یعق عن الغلام بشاتین۔ [قال ابن رشد] من عمل بہ فما أخطأ، و لقد أصاب، کما صححہ الترمذي عن عائشۃ أنہ صلی اللّٰهُ علیه وسلم أمر أن یعق عن الغلام شاتان متکافئتان وعن الجاریۃ بشاۃ۔[2] انتھی، لکن حجۃ مالک ومن وافقہ أنہ لما اختلف الروایات فیما عق بہ عن الحسنین ترجح تساوي الذکور و الإناث بالعمل والقیاس علی الأضحیۃ، (ولیست العقیقۃ بواجبۃ، ولکنھا یستحب العمل بھا) اتباعاً للفعل النبوي
|