ابن عباس رضي اللّٰه عنھما ‘‘ انتھی
[ذبیحے سے مراد عقیقہ ہے، جیسا کہ قربانی میں کیا جاتا ہے، چنانچہ حاکم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً روایت کیا ہے]
شیخ عبد الحق شرح فارسی مشکات میں فرماتے ہیں :
’’جان لو کہ عقیقہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک سنت ہے۔ امام احمد سے ایک روایت میں وجوب بھی آیا ہے۔ اکثر احادیث اس کے سنت ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔ قربانی کے لیے جو شرائط معتبر ہیں ، وہی شرائط و احکام عقیقے کے لیے بھی ہیں ، ہمارے نزدیک یہ سنت نہیں ہے۔‘‘
شیخ المحدثین ولی اللہ الدہلوی نے ’’حجۃ اللّٰه البالغۃ‘‘ میں فرمایا ہے:
’’واعلم أن العرب یعقون عن أولادھم، وکانت العقیقۃ أمرا لازما عندھم، وسنۃ مؤکدۃ، وکان فیہا مصالح کثیرۃ، راجعۃ إلی المصلحۃ الملیۃ والمدنیۃ والنفسیۃ، فأبقاھا النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم ، وعمل بھا، ورغب الناس فیھا‘‘[1] انتھی
[جان لو کہ عرب اپنے بچوں کا عقیقہ کرتے تھے۔ عقیقہ ان کے یہاں لازم اور سنت موکدہ تھا۔ اس میں کئی اچھائیاں تھیں ، جیسے ملی مصلحت ، شہری اور شخصی مصلحت ۔ اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قائم رکھا اور اس پر عمل کیا اور لوگوں کو اس بارے میں رغبت دلائی]
حضرت شیخ مولانا محمد اسحق دہلوی نے کتاب ’’مسائل اربعین‘‘ میں فرمایا:
’’علمائے حنفیہ عقیقے کو مستحب جانتے ہیں ۔ اگر ساتویں دن نہ ہو سکے توچودھویں دن عقیقہ کرے۔ اگر اس دن بھی نہ ہو سکے تو اکیسویں دن کرے۔ اگر تنگ دستی کی بنا پر نہ کرسکے تو فرض یا واجب نہیں ہے کہ اس کے لیے قرض لے۔ بچے کے بالوں کا چاندی سے وزن کرے اور چاندی صدقہ کر دے ، حجام کو اجرت میں نہ دے۔ مالداروں کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ بالوں کا وزن سونے سے کریں ۔ بچے کے بال زمین میں دفن کرنا مستحب ہے۔ کذا في الطیبي شرح المشکوٰۃ۔ پس چاہیے کہ ہر شخص استحباب کی نیت سے یہ ذبیحہ کرے۔
|