بالأصاغر، ومن ذلک قول الأئمۃ الثلاثۃ أن سنۃ في العقیقۃ أن یذبح عن الغلام شاتان، وعن الجاریۃ شاۃ، مع قول مالک أنہ یذبح عن الغلام شاۃ واحدۃ کما في الجاریۃ، فالأول فیہ تشدید، والثاني فیہ تخفیف، فرجع الأمر الی مرتبتي المیزان‘‘ انتھی
[امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک عقیقہ مستحب ہے اور امام ابو حنیفہ اسے مباح کہتے ہیں ، مستحب نہیں ۔ امام احمد ایک روایت کے مطابق اسے سنت اور دوسری کے مطابق اسے واجب کہتے ہیں ۔ اسی کو ان کے بعض اصحاب نے اختیار کیا ہے۔ یہی حسن اور داود کا مذہب ہے، لیکن پہلے اور تیسرے میں تخفیف ہے اور دوسرا زیادہ آسان ہے، لیکن چوتھا سخت موقف ہے۔ اب اس کا مدار ترازو کے طرفین پر ہے۔ ظاہر دلائل وجوب و ندب دونوں کا تقاضا کرتے ہیں ، لیکن ہر ایک کے لیے علاحدہ افراد ہیں ۔ استحباب ان متوسط لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو کبھی کبھار کوئی سنت چھوڑ دیتے ہیں اور وجوب ان اکابر کے لیے ہے جو اپنے نفوس کا ایسے امر پر بھی مواخذہ کرتے ہیں اور اباحت چھوٹے لوگوں کے لیے ہے۔ ائمہ ثلاثہ کا قول ہے کہ عقیقے میں سنت یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے، لیکن امام مالک لڑکے کی طرف سے ایک بکری کے قائل ہیں ۔ پہلے موقف میں سختی ہے اور دوسرے میں تخفیف ہے، چنانچہ معاملہ ترازو کے طرفین کی طرف لوٹ آیا]
علامہ شیخ محمد بن محمد کردری ’’فتاویٰ بزازیہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’العقیقۃ عن الغلام وعن الجاریۃ، وھو ذبح شاۃ في سابع الولادۃ وضیافۃ الناس وحلق شعرہ مباح لا سنۃ‘‘ انتھی
[ عقیقہ لڑکے اور لڑکی کی طرف سے بکری کا ذبح کرنا، ساتویں دن لوگوں کی ضیافت کرتے ہوئے سر منڈوانا، مباح ہے سنت نہیں ]
علامہ علی قاری ’’حزر الثمین شرح حصن حصین‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’وإن کانت الذبیحۃ عقیقۃ فعل کالأضحیۃ، رواہ الحاکم موقوفا عن
|