Maktaba Wahhabi

511 - 702
[جس کے ہاں بچہ پیدا ہو، اس کے لیے مستحب ہے کہ ساتویں دن اس کا نام رکھے، اس کا سر مونڈھے اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اس کے بالوں کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کرے، پھر مونڈنے کے ساتھ ذبح کرے، یہ مباح ہے، جیسا کہ جامع محبوبی میں ہے، یا تطوع ہے جیسا کہ شرح طحاوی میں ہے۔ وہ ایسی بکری ہو جو قربانی کے لیے درست ہے، اسے لڑکے اور لڑکی کے لیے ذبح کیا جائے گا، خواہ اس کا کچا گوشت تقسیم کر دیا جائے یا سالن پکا کر، دونوں طرح درست ہے، اسی طرح گوشت میں ہڈی توڑنا اور نہ توڑنا، دعوت کرنا یا نہ کرنا دونوں طرح درست ہے۔ امام مالک کا بھی یہی موقف ہے اور امام شافعی اور احمد کے نزدیک سنت موکدہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے] مذکورہ بالا عبارت میں ائمہ ثلاثہ سے مراد امام ابو حنیفہ، ابو یوسف اور محمد ہیں ۔ لہٰذا اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اس کے جواز میں ائمہ اربعہ اور ابو یوسف و محمد میں سے کسی کو اختلاف نہیں ۔ علامہ عبد الوہاب شعرانی ’’میزان کبری‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’واتفقوا علی أن وقت الذبح العقیقۃ یوم السابع من ولادتہ‘‘ انتھی [اس بات پر اتفاق ہے کہ عقیقے میں ذبح کا وقت پیدایش سے ساتویں دن ہے] دوسری جگہ اسی باب میں فرمایا: ’’ومن ذلک قول مالک و الشافعي إن العقیقۃ مستحبۃ مع قول أبيحنیفۃ: أنھا مباحۃ، ولا أقول: إنھا مستحبۃ، و مع قول أحمد في أشھر روایۃ: إنھا سنۃ، والثانیۃ: إنھا واجبۃ، واختارہ بعض أصحابہ، و ھو مذھب الحسن وداود، فالأول والثالث مخفف، والثاني أخف، والرابع مشدد۔ فرجع الأمر إلی مرتبتي المیزان، وظاھر الأدلۃ یشھد الوجوب والندب معا۔ ولکل ھھنا رجال، فالاستحباب خاص بالمتوسطین الذین یسامحون نفوسھم بترک بعض السنن، والوجوب خاص بالأکابر الذین یؤاخذون نفوسھم بذلک، والإباحۃ خاصۃ
Flag Counter