ملا علی قاری مرقاۃ میں فرماتے ہیں :
’’یحتمل أن یکون السائل ظن أن اشتراک العقیقۃ مع العقوق في الاشتقاق مما یوھن أمرھا، فاعلم أن الأمر بخلاف ذلک ‘‘[1]
[ممکن ہے کہ سوال کرنے والے نے سمجھ لیا ہو کہ اشتقاق میں اشتراک کے سبب عقیقے کا معاملہ کمزور ہے، لیکن جان لو کہ حقیقت اس کے خلاف ہے]
ان روایات سے معلوم ہوا کہ علما کا اختلاف اس بارے میں ہے کہ لفظ عقیقہ استعمال کرنا چاہیے یا نہیں ، اثباتِ عقیقہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ یہ تو ثابت شدہ ہے۔
امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی ساتویں دن عقیقے میں لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کر نا مستحب ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ مباح ہے۔ اگر بکری کی جگہ دنبہ یا بھینس یا اونٹ ذبح کرے، تب بھی جائز ہے۔ بلوغت کے بعد عقیقہ جائز نہیں ہے۔ اگر ساتویں کے بجائے چودھویں دن کرے، پھر بھی جائز ہے۔ اگر اس دن بھی نہ ہو تو اکیسویں دن کرے۔ بچے کے بال کاٹ دیے جائیں اور ان کے وزن کے برابر سونا یا چاندی دیا جائے۔ ذبح کرنے والے کو اختیار ہے کہ مذبوحہ کی ہڈیاں کاٹے یا نہ کاٹے۔ عقیقے کا گوشت اہل و عیال کو کھلا سکتے ہیں ۔ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ماں باپ نہ کھائیں تو یہ باطل ہے۔
چنانچہ علامہ ابن عابدین حنفی ’’رد المحتار حاشیۃ الدر المختار‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’یستحب لمن ولد لہ ولد أن یسمیہ یوم أسبوعہ، ویحلق رأسہ، و یتصدق عند الأئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذھبا، ثم یعق عند الحلق عقیقۃ إباحۃ علی ما في جامع المحبوبي أو تطوعا علی ما في شرح الطحاوي، وھي شاۃ تصلح للأضحیۃ، تذبح للذکر والأنثٰی، سواء فرق لحمھا نیا أوطبخہ بحموضۃ أو بدونھا، مع کسر عظمھا أو لا، واتخاذ دعوۃ أو لا، وبہ قال مالک، و سنہا الشافعي وأحمد سنۃ مؤکدۃ، شاتان عن الغلام وشاۃ عن الجاریۃ ‘‘[2] انتھی
|