الشافعیۃ: یستحب تسمیتھا نسیکۃ أو ذبیحۃ، ویکرہ عقیقۃ‘‘[1] انتھی
[ممکن ہے کہ ان کے نزدیک مجتہدین مراد ہوں ، کیونکہ ابن ابی الدم نے اپنے شافعی اصحاب سے نقل کیا ہے کہ لفظ نسیکہ ا و ر ذبیحہ مستحب ہے اور لفظ عقیقہ مکروہ ہے]
شیخ علی قاری ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں اور شیخ سلام اللہ ’’محلی‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’قال التوربشتي: ھوکلام غیر سدید، لأن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم ذکر العقیقۃ في عدۃ أحادیث، ولو کان یکرہ الاسم لعدل عنہ إلی غیرہ‘‘[2] انتھی
[توربشتی نے کہا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث میں اسے عقیقہ کہا ہے، لہٰذا اگر اسے نا پسند فرماتے تو دوسرے نام سے پکارتے]
بلکہ ایک دوسری وجہ بھی ہے، اور وہ یہ کہ سوال کرنے وا لے کا خیال تھا کہ لفظ عقیقہ اور عقوق، اشتقاق میں مشترک ہیں یعنی عقق سے ہیں ، لہٰذا عقوق اور عقیقہ کا حکم ایک ہی ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا کہ اللہ کے یہاں جو چیز نا پسندیدہ ہے وہ عقوق ہے ، عقیقہ نہیں ۔ علامہ سلام اللہ رامپوری بھی محلی میں فر ماتے ہیں کہ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ سائل نے گمان کر لیا ہو کہ ان دونوں عقیقہ اور عقوق کے مشتقات ایک ہیں ۔ یہ بات کمزور ہے۔ جان لو کہ حقیقت اس کے بر خلاف ہے، وہ یہ کہ جو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے وہ عقوق (نافرمانی)ہے نہ کہ عقیقہ۔
چنانچہ علامہ سلام اللہ رامپوری محلی میں فرماتے ہیں :
’’وإنما الوجہ فیہ أن یقال: یحتمل أن یکون السائل ظن أن اشتراک العقیقۃ مع العقوق في الاشتقاق مما یوھن أمرھا، فاعلم أن الأمر بخلاف ذلک بمعنی أن الذي کرمہ اللّٰه من ہذا الباب ہو العقوق لا العقیقۃ‘‘
[ممکن ہے کہ سوال کرنے والے نے گمان کر لیا کہ عقیقہ اور عقوق کے مشتقات میں اشتراک کے سبب عقیقے کا معاملہ کمزور ہے۔ پس جان لو کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے کیونکہ اﷲ نے عقوق کو ناپسند کیا ہے نہ کہ عقیقے کو]
|