انداز سے کہا کہ کیا میں بیٹے کی طرف سے جانور ذبح کر سکتا ہوں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو پیدہ شدہ بچے کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکرے ذبح کرے اور لڑکی کی طرف سے ایک ذبح کرے۔‘‘
’’اس کی مثال یہ ہے کہ صلوٰۃ عشا کو صلوٰۃ عتمہ کہنے سے منع فر مایا گیا ہے، حالانکہ دونوں سے نماز عشا مراد ہے۔ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ’’صلوٰۃ عتمہ‘‘ کا لفظ کفار استعمال کرتے تھے، اس لیے مسلمانوں کے لیے اس کا استعمال مکروہ بتایا گیا۔ چنانچہ بعض علما کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’لا أحب العقوق‘‘ فرما کر ’’عقیقہ‘‘ لفظ استعمال کرنے سے کراہت کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو پھر بہت سی حدیثوں میں ’’عقیقہ‘‘ لفظ خود ان کی زبانی کیوں منقول ہوتا ؟ مثلاً: ’’مع الغلام عقیقۃ‘‘ رواہ البخاري۔[1] [بچے کے ساتھ عقیقہ ہے] اور مثلاً: ’’الغلام مرتھن بعقیقتہ‘‘[2] رواہ الترمذي۔ [لڑکا اپنے عقیقے کے ساتھ رہن رکھا ہوتا ہے] لہٰذا معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (( لا أحب العقوق )) کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عقیقہ درست نہیں ہے۔
چنانچہ علامہ زرقانی نے شرح موطا میں علامہ ابن عبد البر کا قول نقل کیا ہے:
’’وکان الواجب بظاھر الحدیث أن یقال لذبیحۃ المولود: نسیکۃ، ولا یقال: عقیقۃ، لکني لا أعلم أحدا من العلماء مال إلی ذلک، ولا قال بہ، وأظنہم ترکوا العمل بہ لما صح عندہ في غیرہ من الأحادیث من لفظ العقیقۃ‘‘ انتھی
[اس حدیث کی بنا پر ضروری ہے کہ بچے کی پیدایش پر ذبح کیے جانے والے جانور کو نسیکہ کہا جائے اور اسے عقیقہ نہ کہا جائے، لیکن علما میں سے کوئی بھی اس کا قائل اور عامل نہیں ہے، کیونکہ کئی ایک صحیح احادیث میں عقیقے کا لفظ موجود ہے]
پھر بعد میں وہ یہ قول بیان کرتے ہیں :
’’ولعل مرادہ من المجتہدین، و إلا فقد قال ابن أبي الدم عن أصحابھم
|