حدیث کی رو سے واجب ہے کہ اسے مولود کا ذبیحہ یا نسیکہ کہا جائے۔ عقیقہ نہ کہا جائے، چنانچہ زرقانی شرح موطا میں فرماتے ہیں :
’’قال ابن عبد البر: وفیہ کراھۃ ما یقبح معناہ من الأسماء، وکان صلی اللّٰهُ علیه وسلم یحب الاسم الحسن، وکان الواجب بظاھر الحدیث أن یقال لذبیحۃ المولود: نسیکۃ ، ولا یقال: عقیقۃ‘‘[1] انتھی
[اس حدیث سے برے معنی والے نام رکھنا مکروہ ظاہر ہوتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اچھے نام پسند فرماتے، لہٰذا اس حدیث کی رو سے ضروری ہے کہ ’’نسیکہ‘‘ کہا جائے اور عقیقے کا لفظ نہ بولا جائے]
قسطلانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں :
’’قال ابن أبي الدم: قال أصحابنا: تستحب تسمیتھا نسیکۃ أو ذبیحۃ، وتکرہ تسمیتھا عقیقۃ، کما تکرہ تسمیۃ العشاء عتمۃ‘‘[2] انتھی
[ ابن ابی الدم نے فرمایا: ہمارے اصحاب کے نزدیک نسیکہ یا ذبیحہ کے الفاظ مستحب ہیں ، جبکہ عقیقہ کا لفظ مکروہ ہے، جیسا کہ عشا کو عتمہ کہنا مکروہ ہے]
قسطلانی شرح بخاری میں اور زرقانی شرح موطا میں فرماتے ہیں :
’’قد تقرر في علم الفصاحۃ الاحتراز عن لفظ، یشترک فیہ معنیان، أحدھما مکروہ، فیجاء بہ مطلقاً‘‘[3] انتھی
[علم فصاحت میں یہ بات طے شدہ ہے کہ ایسے لفظ سے اجتناب کیا جائے جس کا ایک معنی کراہت پر دلالت کرتا ہو اور ایسا لفظ مطلقاً نہ بولا جائے]
علامہ سلام اللہ محلی میں فرماتے ہیں :
’’یعني أنہ کرہ الاسم، و أحب أن یسمي بأحسن أسماء کالنسیکۃ والذبیحۃ، جریا علی عادتہ في تغییر الاسم القبیح‘‘ انتھی
|