علیھا في عدۃ أحادیث‘‘[1] انتھی
[گویا انھوں نے ناپسند فرمایا نام کو نہ کہ معنی کو، جس میں ایک جانور کو بطور قربانی ذبح کیا جاتا ہے، کیونکہ متعدد احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے]
دوم یہ کہ یہاں ’’عقوق‘‘ سے والدین کی طرف سے بچے کو عاق کرنا مراد ہے، اس سے عقیقے کی کراہت کے بجائے عقیقہ نہ کرنے کی کراہت کا ثبوت ہوتا ہے۔ چنانچہ علامہ محمد طاہر پٹنی ’’مجمع بحار الأنوار‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ویحتمل أنہ استعار العقوق للوالد، وجعل إباء ہ عن العقیقۃ مع قدرتہ عقوقا‘‘[2] انتھی
[احتمال ہے کہ والد کے لیے عقوق کا لفظ استعمال فرمایا ہو، کیونکہ اگر والد قدرت و طاقت کے باوجود عقیقہ کرنے سے انکار کرتا ہے تو گویا اس نے اپنے بچے کو عاق کیا]
شیخ سلام اللہ ’’محلی شرح موطا امام مالک‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ویحتمل أن یکون العقوق في ھذا الحدیث مستعارا للوالد، کما ھو حقیقتہ في حق الوالد، وذلک أن المولود إذا لم یعرف حق أبویہ صار عاقا، کذلک جعل إباء ہ عن أداء حق المولود عقوقا علی الاتساع، فقال: لا أحب اللّٰہ العقوق، أي ترک ذلک من الوالد مع قدرتہ علیہ، یشبہ إضاعۃ المولود حق أبویہ ، ولا یحب اللّٰه ذلک‘‘ انتھی
[ممکن ہے حدیث میں لفظِ عقوق کو والد کے حق میں استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہو، کیونکہ بچہ جب اپنے والدین کے حقوق نہیں پہچانتا تو عاق ہوجاتا ہے، اسی طرح باپ کے بچے کا حق ادا نہ کرنے کو عقوق قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: اﷲ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں فرماتے۔ یعنی باپ کا قدرت کے باوجود بچے کا عقیقہ نہ کرنا والدین کا حق ضائع کرنے کے مشابہ ہے اور اﷲ تعالیٰ یہ پسند نہیں فرماتے]
سوم یہ کہ سائل کو عقیقے کے بارے میں علم نہ تھا کہ یہ مکروہ ہے یا مستحب۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
|