13۔’’عن عبد اللّٰه بن بریدۃ قال: سمعت أبي بریدۃ یقول:کنا في الجاھلیۃ إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاۃ، ولطخ رأسہ بدمھا، فلما جآء الإسلام کنا نذبح شاۃ، ونحلق رأسہ، و نلطخہ بزعفران‘‘ رواہ ابوداود۔[1]
[ عبد اللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد (بریدہ) سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں جب ہمارے یہاں کسی کا بچہ پیدا ہوتا تھا تو ایک بکری ذبح کرتا اور اس کے سر پرخون کو ملا جاتا ۔ جب اسلام آیا تو ہم بکری ذبح کرتے اور اس کے سر کو مونڈتے اور سر پر زعفران ملتے۔ اسے ابو داود نے روایت کیا ہے]
جس حدیث میں ’’لا أحب العقوق‘‘[2] (میں عقوق کو پسند نہیں کرتا) کے الفاظ آئے ہیں ، ان سے چند وجوہ کی بنا پر عقیقے کی کراہت مقصود نہیں :
اول یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کرنے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ ’’عقیقہ‘‘ لفظ سے کراہت کا اظہار کیا ہے، کیونکہ یہ ’’عقق‘‘ سے ماخوذ ہے اور ’’عقوق والدین‘‘ (والدین کی نافرمانی) سے اس کا اشتباہ ہوتا ہے۔ اس لیے انھیں ’’عقیقے‘‘ کا لفظ اچھا نہ لگا اور اسے بدل کر انھوں نے ’’ذبیحہ‘‘ اور ’’نسیکہ‘‘ کر دیا۔ برے نام کو اچھے نام سے بدلنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معروف عادت تھی۔
چنانچہ علامہ محمد طاہر پٹنی نے کتاب ’’مجمع بحار الأنوار‘‘ میں فرمایا ہے:
’’حدیث ’’لا أحب العقوق‘‘ لیس فیہ توھین لأمر العقیقۃ، وإنما کرہ الاسم، وأحب اسم النسیکۃ والذبیحۃ،کما اعتادہ في تغییر الاسم القبیح‘‘[3] انتھی
[جس حدیث میں ’’لا أحب العقوق‘‘ وارد ہوا ہے، اس سے عقیقے کی اہانت مقصود نہیں ہے، بلکہ آپ نے صرف یہ نام ناپسند کیا ہے اور اس کے بدلے ’’نسکیہ‘‘ اور ’’ذبیحہ‘‘ نام کو پسند فرمایا ہے، کیونکہ آپ کی سنت تھی کہ آپ برے نام کو بدل دیا کرتے تھے]
علامہ زرقانی شرح موطا میں فرماتے ہیں :
’’وکأنہ کرہ الاسم لا المعنی الذي ھو ذبح واحدۃ تجزیٔ ضحیۃ، لنصہ
|