[نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر سے ان کے گھر میں کوئی عقیقے کا جانور مانگتا تو اسے عقیقے کا جانور دے دیتے۔ وہ اپنی اولاد ، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی ، کی طرف سے ایک ایک بکری ذبح کیا کرتے تھے۔مالک نے موطأ میں روایت کی ہے]
4۔’’مالک عن ھشام بن عروۃ أن أباہ عروۃ بن الزبیر رضی اللّٰه عنہ کان یعق عن بیتہ الذکور والإناث بشاۃ شاۃ‘‘[1]
[ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ ان کے والد عروہ بن زبیر اپنے بیٹے اور بیٹی کی طرف سے ایک ایک بکری عقیقے میں ذبح کرتے تھے]
5۔’’عن سمرۃ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : الغلام مرتھن بعقیقتہ، یذبح عنہ یوم السابع، و یسمی، و یحلق رأسہ‘‘ رواہ الترمذي والدارمي و أبوداود۔[2]
[سمرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مولود اپنے عقیقے تک رہن رکھا ہوا ہوتا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے۔ اسے ترمذی و دارمی ا ور ابوداود نے روایت کیا ہے]
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رہن رہنے کے معنی یہ ہیں کہ بچہ والدین کے حق میں شفاعت کرنے سے روکا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی طرف سے عقیقہ کریں ۔ نیز اس حدیث کی تشریح میں کہتے ہیں کہ جو بھی نو مولود بچہ ہے، وہ اس وقت تک اپنے والدین کے حق میں سفارش نہیں کر سکے گا، جب تک اس کے والدین اس کی طرف سے عقیقہ نہیں کر دیتے۔ بعض علما کا کہنا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ خیر کے حاصل کرنے اور تکلیف سے محفوظ رہنے اور اچھی جسمانی پرورش اور صحت سے اس وقت تک محروم رہے گا، جب تک اس کے والدین اس کی طرف سے عقیقہ نہیں کر دیتے۔ درحقیقت یہ والدین ہی کی پکڑ ہے، کیونکہ انھوں نے بچے کا عقیقہ کرنے میں کوتاہی کی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ بچہ گندگی کے ساتھ رہن رہتا ہے، کیونکہ حدیث میں (( فأمیطواعنہ الأذی )) کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔ لیکن امام احمد کے قول پر اعتماد اولیٰ ہے کہ یہی معنی سلف سے مروی ہے، جیسا کہ شیخ عبدالحق دہلوی کی ’’أشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ‘‘ میں ہے۔[3]
|