Maktaba Wahhabi

495 - 702
زیادہ کیوں نہ ہوں اور نہ کسی قیاس یا کسی اور شے کی کوئی حیثیت ہے، یہاں تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں سر تسلیم خم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ امام احمد فرمایا کرتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں کسی کے کلام کی کوئی حیثیت نہیں ۔ آپ نے ایک دفعہ ایک شخص سے فرمایا: میری تقلید کر نہ مالک کی نہ شافعی کی نہ نخعی کی اور نہ کسی اور کی، احکام وہیں سے لو جہاں سے انھوں نے یعنی قرآن و حدیث سے لیے ہیں ] ان روایات سے ثابت ہوا کہ اگر امام کا قول نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے خلاف ہو تو حدیث پر عمل ہوگا اور اسی کو امام کا مذہب سمجھا جائے گا۔ اس لیے کہ ائمہ اربعہ نے کہا ہے کہ جب بھی صحیح حدیث آجائے، وہی ہمارا مذہب ہے۔ مگر مقلدین پر تعجب ہے کہ امام کے اس قول کی تقلید نہیں کرتے اور حدیث کے خلاف اس کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔ پس میں کہتا ہوں کہ عقیقے کاعمل امام ابو حنیفہ کے نزدیک صحیح قول کے مطابق مستحب ہے۔ بالفرض اگر اس کا استحباب ان سے نہ بھی ثابت ہو، تب بھی مسئلے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ بہت سی صحیح احادیث سے اس کا استحباب ثابت ہے، نیز امام صاحب کے فرمان ’’إذا صح الحدیث فھو مذھبي‘‘ کے مطابق ان کا بھی یہی مذہب ٹھہرے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے میں ایک رسالہ تحریر کروں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و مجتہدین کے اقوال سے دلائل دوں ، تاکہ حق و باطل میں تمیز ہو سکے۔ اس رسالے میں ہم نے احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوالِ ائمہ سے عقیقے کا ثبوت پیش کیا ہے، تاکہ حق اور باطل میں امتیاز ہو سکے۔ اس وضاحت کے بعد بھی اگر کو ئی نہ مانے تو وہ اس آیت کا مصداق ہوگا : { وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ ت مَصِیْرًا} [النساء: ۱۱۵] [جو کوئی حق واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کی راہ سے ہٹ کر چلے گا اسے ہم وہ کرنے دیں گے جو وہ کرے گا ، پھر جہنم میں داخل کریں گے جو بہت برا ٹھکانہ ہوگا] اس رسالے کا نام ہم نے ’’الأقوال الصحیحۃ في أحکام النسیکۃ‘‘ رکھا ہے۔ وما توفیقي إلا باللّٰه علیہ التوکل و بہ الاعتصام۔
Flag Counter