فمن جآء بأحسن منہ فھو أولی بالصواب، وکان الإمام مالک رضی اللّٰه عنہ یقول: ما من أحد إلا و ھو مأخوذ من کلامہ ومردود علیہ إلا رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم ۔ و روی الحاکم و البیھقي عن الشافعي رضی اللّٰه عنہ أنہ کان یقول: إذا صح الحدیث فھو مذھبي۔ و في روایۃ: إذا رأیتم کلامي یخالف الحدیث فاعملوا بالحدیث، و اضربوا بکلامي الحائط، وقال یوما للمزني: یا إبراھیم لا تقلدني في کل ما أقول، و انظر في ذلک لنفسک، فإنہ دین، وکان رضی اللّٰه عنہ یقول: لا حجۃ في قول أحد دون رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم وإن کثروا، ولا في قیاس و لا في شيء، وما ثم إلا طاعۃ اللّٰه ورسولہ بالتسلیم، وکان الإمام أحمد یقول: لیس لأحد مع اللّٰه و رسولہ کلام۔ وقال أیضاً لرجل: لا تقلدني ولا تقلدن مالکا و لا الأوزاعي و النخعي و لا غیرھم، و خذ الأحکام من حیث أخذوا من الکتاب السنۃ‘‘[1] انتھی
[الیواقیت والجواہر میں ہے کہ امام ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے: جس شخص کومیری دلیل معلوم نہ ہو، اس پر میرے کلام سے فتویٰ دینا حرام ہے۔ آپ جب فتویٰ دیتے تو کہا کرتے تھے کہ یہ نعمان بن ثابت کی ذاتی رائے ہے اور یہ ہماری طاقت کے مطابق سب سے اچھی رائے ہے۔ اگر کوئی اس سے اچھی رائے لے آئے تو وہ صحیح قرار دیے جانے کی زیادہ حق دار ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہر شخص کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جا سکتی ہے، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے۔امام حاکم اور امام بیہقی رحمہم اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ ان کی ایک روایت میں ہے کہ جب تم دیکھو کہ میرا کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مخالف ہے تو حدیث پر عمل کرو اور میرے کلام کو دیوارپر مار دو۔ ایک دن امام شافعی نے ابراہیم مزنی سے فرمایا: اے ابراہیم! ہر بات میں میری تقلید نہ کیا کرو اور از خود بھی غور و فکر کر لیا کرو، کیونکہ یہ دین کا معاملہ ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی کی بات حجت نہیں ،خواہ یہ بات کہنے والے کتنے ہی
|