کہ کچھ مجتہد اماموں نے عقیقے کی سنت کو مکروہ یا نا پسندیدہ سمجھا ہے اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے عقیقے کا سنت اور مستحب ہونا ثابت ہے تو ایسی صورت میں بھی پوری امت کا فرض تھا کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو مضبوطی سے تھام لیں اور امام کے قول کو چھوڑ دیں ، کیونکہ یہی بات چاروں اماموں کی وصیت اور نصیحت ہے کہ تم لوگوں کو جو بھی صحیح حدیث مل جائے تو اسی پر عمل کرو، کیونکہ جو بات صحیح حدیث سے ثابت ہوگئی، وہی ہمارا مذہب ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی بھی امام کا قول حدیث کے خلاف ہے تو امام کے قول کو چھوڑ کر حدیث ہی کی بات کو لینا چاہیے، مگر ان مقلدوں کی حالت پر حیرانی اور افسوس ہے، جو اپنے ہی اماموں کے اس قول کی تو پابندی نہیں کر رہے کہ جو بھی صحیح حدیث ہے وہی ہمارا مذہب ہے، جبکہ یہی مقلدین اپنے اماموں کے دیگر اقوال کی پابندی کر رہے ہیں ، اگرچہ وہ اقوال صحیح احادیث کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں ۔
میں کہتا ہوں کہ صحیح ترین قول اور روایت کے مطابق بچے کی پیدایش پر عقیقہ کرنا امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی سنت اور مستحب ہی ہے۔ اگر بالفرض یہ بات مان بھی لی جائے کہ عقیقے کا مستحب اور سنت ہونا امام ابو حنیفہ کے قول سے ثابت نہیں ہے، تب بھی اس کا ہمارے موضوع پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا، کیونکہ عقیقہ کرنا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ لہٰذا جب عقیقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہوگیا تو پھر یہی بات امام ابوحنیفہ کے مذہب کا بھی حصہ ہوئی، کیونکہ امام ابوحنیفہ نے خود ہی فرمایا تھا کہ جو بھی صحیح حدیث ہے، وہی میرا مذہب ہے۔
شیخ عبدالوہاب شعرانی ’’میزان کبری‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’قد تقدم قول الأئمۃ کلھم: إذا صح الحدیث فھو مذھبنا، و لیس لأحد معہ قیاس و لا حجۃ إلا طاعۃ اللّٰه ورسولہ بالتسلیم لہ‘‘[1] انتھی
[تمام ائمہ کا یہ قول گزرچکا ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی ہمارا مذہب ہے اور کسی کے لیے صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے کوئی قیاس یا حجت بازی کرنی جائز نہیں ، سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں سر تسلیم خم کر دے۔ ختم شد]
علامہ محمد معین رحمہ اللہ ’’دراسات اللبیب‘‘ میں فرماتے ہیں :
|