Maktaba Wahhabi

489 - 702
] اللہ تعالی اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گاوہ صریح گمراہی میں پڑ گیا] ان لوگوں کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں ہے کہ پوری امت میں کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان بوجھ کر مخالفت اور نافرمانی کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ} [الحجرات: ۲] [اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرواور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو، جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمھیں خبر بھی نہ ہو] جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں محض اپنی آواز کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچا کرنے سے منع فر ما دیا، تو پھر ان ظالموں کے لیے یہ بات کہاں سے جائز ہوگئی کہ وہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور بات کو مرجوح (کمتر) اور ان کی امت کے ایک فرد کی بات کو راجح (زیادہ بہتر) قرار دے دیں ؟! حالانکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: { لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} [الأحزاب: ۲۱] [ یقینا تمھارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے] تو جاہل اور نا سمجھ لو گ ایسی آیت کو قصص و واقعات جیسی کوئی چیز سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ، جیسا کہ آج کل ہم نے سنا کہ اس زمانے کے کچھ لوگ بچے کی طرف سے جو عقیقہ کیا جاتا ہے ، اسے مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھتے ہیں اور اس کے کرنے والے کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ حالانکہ بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، جس پر علماے مجتہدین نے بھی عمل کیا ہے، لیکن جاہل لوگ اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں بچوں کا عقیقہ کرنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا، بلکہ یہ عقیقے کا عمل اہل سنت کے ان علما کی اختراع اور ایجادہے جو کسی بھی امام کی تقلید کے قائل نہیں ہیں ۔ مجھے ان لوگوں کی بات پر حیرانی ہوئی کہ یہ لوگ کس طرح عقیقے کی سنت کا انکار کر رہے ہیں ، جب کہ وہ ایسی صحیح احادیث سے ثابت ہے، جو منسوخ بھی نہیں ہیں اور چاروں اماموں کے اقوال بھی عقیقے کی سنیت کی تائید میں کثرت سے موجود ہیں ۔ اگر ہم بالفرض یہ بات مان بھی لیں
Flag Counter