Maktaba Wahhabi

475 - 702
’’اور ابن الحاج مالکی نے مدخل میں لکھا ہے: امام کو لازم ہے کہ مصافحہ سے جو بعد نماز صبح کے اور بعد نماز جمعہ کے اور بعد نماز عصر کے منع کردے، بلکہ پنجگانہ نماز کے بعد کرنے لگے ہیں ، یہ تمام بدعت ہے، کیونکہ شرع میں مصافحہ کا مقام صرف وقت ملاقات مسلم کا ہے بھائی مسلمان سے، نمازوں کے بعد نہیں ہے۔ پھر جس جگہ شرع نے مقرر کیا ہے اسی جگہ قائم رکھنا چاہیے، اور مصافحہ سے منع کرنا چاہیے اور مصافحہ کرنے والوں کو زجر کرنا چاہیے جبکہ خلافِ سنت کرنے لگیں ۔ اور ان کی اس تصریح سے اجماع معلوم ہوتا ہے، جس کی مخالفت جائز نہیں ہے، بلکہ اتباع لازم ہے، واسطے قول اللہ تعالیٰ کے: ’’اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کھل چکی اس پر راہ کی بات اور چلے خلاف سب مسلمانوں کی راہ سے، سو ہم اس کو حوالہ کریں جو اس نے پکڑے اور ڈالیں اس کو دوزخ میں ، اور بہت بری جگہ پہنچا‘‘۔ اور اگر فقہا اس مصافحہ کو صاف مکروہ نہ کہتے، بلکہ فی نفسہ مباح ہوتا تو بھی ہم اس زمانے میں کراہت کا حکم کرتے۔ اس لیے کہ لوگ اس پر جم گئے ہیں ، اور اسے سنت لازمہ جانتے ہیں کہ اس کا ترک کرنا جائز نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ ہم کو یہ خبر پہنچی ہے ایک شخص سے جو صاحب علم مشہور ہے، کہتا ہے کہ یہ مصافحہ اسلام کی نشانیوں میں سے ہے، جو ایمان والا ہے اس کو کیوں کر چھوڑ سکتا ہے؟ اب اے انصاف والو ! دیکھو تو جب خواص کا یہ اعتقاد ہو تو عوام کا کیا ہوگا؟ اور جو امر مباح اس نوبت کو پہنچ جائے تو پھر وہ بھی مکروہ ہے۔‘‘ اور کہا حافظ ابن القیم نے ’’إغاثۃ اللہفان‘‘ میں : ’’إن العمل إذا جری علی خلاف السنۃ فلا اعتبار بہ، ولا التفات إلیہ، وقد جری العمل علی خلاف السنۃ منذ زمن طویل فإذن لا بد لک أن تکون شدید التوقي من محدثات الأمور، وإن اتفق علیہ الجمھور، و لا یغرنک إطباقھم ما أحدث بعد الصحابۃ بل ینبغي لک أن تکون حریصا علی التفتیش عن أحوالھم و أعمالھم فإن أعلم الناس وأقربھم إلی اللّٰه تعالی أثبتھم و أعرفھم بطریقھم إذ منھم أخذ الدین، و ھم الحجۃ في نقل الشریعۃ عن صاحب الشرع، ینبغي لک أن لا تبال بمخالفتک لأھل
Flag Counter