[ملتقط میں ہے کہ مصافحہ بہر حال نماز کے بعد مکروہ ہے، اس واسطے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے نماز کے بعد مصافحہ نہیں کیا او ر اس لیے کہ یہ طریقہ رافضیوں کا ہے]
وقال ابن حجر من الشافعیۃ: ’’ما یفعلہ الناس من المصافحۃ عقیب الصلوات الخمس بدعۃ مکروھۃ، لا أصل لھا في الشریعۃ المحمدیۃ، ینبہ فاعلھا أولا بأنھا بدعۃ مکروھۃ، و یعزر ثانیا إن فعلھا‘‘
[ابن حجر مکی شافعی نے کہا ہے کہ یہ جو لوگ پنج گانہ نمازوں کے بعد مصافحہ کیا کرتے ہیں ، بدعت مکروہہ ہے، شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی کچھ اصل نہیں ۔ مصافحہ کرنے والے کو پہلے بتلانا چاہیے کہ یہ بدعت مکروہ ہے اوراگر ترک نہ کرے تو پھر تعزیر دینی چاہیے]
وقال ابن الحاج من المالکیۃ في المدخل: ’’ینبغي أن یمنع الإمام ما أحدثوہ من المصافحۃ بعد صلوۃ الصبح، و بعد صلاۃ الجمعۃ، وبعد صلوۃ العصر، و بل زاد بعضھم فعل ذلک بعد الصلوات الخمس، و ذلک کلہ من البدع، و موضع المصافحۃ فی الشرع إنما ھو عند لقاء المسلم لأخیہ لا في أدبار الصلوٰت، فحیث وضعھا الشرع یضعھا، و ینھی عنھا و یزجر فاعلھا لما أتی من خلاف السنۃ، و ھذا التصریح منھم یشعر بالإجماع فلا یجوز المخالفۃ، بل یلزم الاتباع لقولہ تعالی: { وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ ت مَصِیْرًا} [النساء:۱۱۵] ولو لم یصرح الفقھاء بکراھتھا بل کانت مباحۃ في نفسھا لحکمنا في ھذا الزمان بکراھتھا، إذا واظب علیھا الناس، واعتقدوھا سنۃ لازمۃ بحیث لا بجیزون ترکھا، حتی وصل إلینا من بعض من اشتھر بالعلم أنہ قال: ھي من شعائر الإسلام، فکیف یترکھا من کان من أھل الإیمان؟ فانظروا یا أھل الإنصاف إذا کان اعتقاد الخواص ھکذا فاعتقاد العوام ماذا یکون؟ وکل مباح أدی إلی ھذا فھو مکروہ‘‘[1] انتھی
|