Maktaba Wahhabi

473 - 702
لأخیہ فینبغي أن توضع حیث و ضعھا الشرع۔ أما في غیر حال الملاقاۃ مثل کونھا عقیب صلوۃ الجمعۃ و العیدین کما ھو العادۃ في زماننا فالحدیث ساکت عنہ فیبقی بلا دلیل، وقد تقرر في موضعہ أن ما لا دلیل علیہ فھو مردود لا بجوز التقلید فیہ، بل یردہ ما روي عن عائشۃ أنہ علیہ السلام قال: (( من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد )) أي مردود۔ فإن الاقتداء لا یکون إلا بالنبي علیہ السلام، إذ قال اللّٰه تعالی: { وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا} [الحشر:۷] وقال فی آیۃ أخری: { فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ} [النور:۶۳] علی أن الفقھاء من الحنفیۃ والشافعیۃ والمالکیۃ صرحوا بکراھتھا وکونھا بدعۃ ‘‘[1] یعنی اور بدون وقت ملاقات کے جیسے بعد نماز جمعہ اور عیدین کے جو اس زمانے میں عادت جاری ہے، سو حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ پس یہ بلا دلیل ہے اور اپنی جگہ میں یہ ثابت ہے کہ جس امر کی کچھ دلیل نہیں ہوتی تو وہ مردود ہو تا ہے، اس میں پیروی جائز نہیں ۔ بلکہ یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ہی رد ہوتا ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا جس نے کچھ نئی بات نکالی ہمارے اس دین میں جو دین سے نہیں ہے سو وہ سب رد ہے۔ یعنی مردود ہے، کیونکہ پیروی سوائے نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے کسی کی نہیں ۔ اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اور جو دے تم کو رسول لے لو اور جس سے منع کرے اس کو چھوڑ دو‘‘ اور ایک آیت میں فرمایا: ’’سو ڈرتے رہیں جو لوگ خلاف کرتے ہیں اس کے حکم کا، کہ پڑے ان پر کچھ خرا بی یا پہنچے ان کو عذاب درد دینے والا‘‘۔علاوہ یہ ہے کہ فقہا حنفی اور شافعی اور مالکی مذہبوں نے اس مصافحہ کو صاف مکروہ کہا ہے اور بدعت بتایا ہے۔ قال في الملتقط: ’’یکرہ المصافحۃ بعد الصلوۃ بکل حال، لأن الصحابۃ ما صافحوا بعد الصلوۃ، و لأنھا من سنن الروافض‘‘[2]
Flag Counter