اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے:
’’یکرہ المعانقۃ‘‘[1] انتھی [معانقہ مکروہ ہے۔ ختم شد]
اور مدخل شیخ ابن الحاج مالکی میں ہے:
’’وأما المعانقۃ فقد کرھھا مالک‘‘[2] انتھی
[ رہا معانقہ تو اس کو مالک نے مکروہ کہا ہے]
پس علماء حنفیہ و شافعیہ و مالکیہ کے نزدیک معانقہ کرنا ایسے شخص سے جائز ہے، جو کہ سفر سے آتا ہو اور سوائے اس کے مکروہ ہے۔
باقی رہا مصافحہ و معانقہ بعد نماز عیدین کے، پس اس کا جواب یہ ہے کہ معانقہ و مصافحہ کر نا بعد نماز عیدین کے ناجائز و بدعت ہے اور یہ بدعت اگرچہ مدت قدیمہ سے جاری ہے، مگر زمانہ قرون ثلاثہ میں اس کا وجود نہیں تھا، بعد قرون ثلاثہ کے یہ بدعت حادث ہوئی ہے۔ اور لوگوں کی یہ حالت ہے کہ مصلیٰ یا مسجد میں عیدین کے دن نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں اور سارے لوگ ایک جا موجود رہتے ہیں اور ایک کو دوسرے سے ملاقات ہوتی ہے، مگر وقت ملاقات کے سلام اور مصافحہ کچھ بھی نہیں کرتے، گویا وقت ملاقات کے یہ مسنون ہی نہیں ہے، پھر جہاں نماز سے فرصت ہوئی، ہر شخص نے مصافحہ یا معانقہ کر نا شروع کیا، گویا وقت مسنون اب آیا اور اس مصا فحہ و معانقہ کو لوگ سنت صلوٰۃ عیدین کی سمجھتے ہیں ۔ پس یہ مصافحہ و معانقہ جو اس خصوصیت کے ساتھ بعد نماز عیدین کے ہوتا ہے، بلاشک بدعت و محدث فی الدین ہے۔ اور معانقہ کا حال تو اوپر معلوم ہوا کہ وقت قدوم مسافر کے مسنون ہے اور سوائے اس کے مکروہ ہے۔ پس معانقہ بعد صلوۃ العیدین یہ بھی مکروہ ہوگا اور اس تخصیص کے ساتھ علاوہ کراہت کے بدعت بھی ہوگا۔
شیخ احمد بن علی حنفی رومی نے ’’مجالس الأبرار و مسالک الأخیار‘‘ میں لکھا ہے:
’’المجلس الخمسون في بیان المصافحۃ و فوائدھا و بدعیتھا في غیر محلھا۔ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : (( ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان إلا غفر لھما قبل أن یتفرقا )) فیثبت شرعیۃ المصافحۃ عند لقاء المسلم
|