Maktaba Wahhabi

464 - 702
’’ابن ہشام نے یہ بھی کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں بنو عمرو بن عوف کے یہاں سوموار، منگل، بدھ اور جمعرات کے دن تک اقامت پذیر رہے اور ان کی مسجد کی بنیاد رکھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعے کے دن ان کے درمیان سے نکالا۔ بنو عمرو بن عوف یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان زیادہ دنوں تک ٹھہرے، یہ اللہ ہی کو زیادہ بہتر معلوم ہے کہ آپ کتنے دن ٹھہرے۔ راستے میں بنو سالم بن عوف میں جمعے کا وقت ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعے کی نماز اس مسجد میں پڑھی جو بطن وادی میں وادی رانوناء میں تھی۔ تو یہ پہلا جمعہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں ادا کیا۔ختم شد] پس صلوٰۃ جمعہ کہ عمدہ شعائر اسلام سے ہے اور فرضیت اس کی نص قطعی سے ثابت ہے، ادا کرنا اس کا شہر و قصبات و دیہات ہر جگہ لازم و واجب ہے اور محض بنا برتفسیر کرخی یا بلخی کے کہ وہ مقابل دلیل ظنی کے بھی نہیں ہے، بلکہ ایک رائے محض ہے، ترک کرنا امر قطعی کا بالکل نا فہمی اور ضعف ایمان کی نشانی ہے۔ اور جواب تیسرے سوال کا یہ ہے کہ نماز جمعہ فرض عین ہے۔ فرضیتِ ظہر اس سے ساقط ہو جاتی ہے، اس لیے کے صلوٰۃ جمعہ قائم مقام صلوٰۃ ظہر ہے۔ پس جس شخص نے ظہر احتیاطی ادا کیا، اس نے ایک صلوٰۃ مفروضہ کو دوبارہ ایک دن ایک وقت میں بلا اذن شارع ادا کیا اور یہ ممنوع ہے۔ عن ابن عمر قال سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم : (( یقول لا تصلوا صلوٰۃ في یوم مرتین )) [1] رواہ أحمد وأبو داود والنسائي۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک نماز کو دوبار ایک دن میں نہ پڑھو۔ پھر جب جمعہ بالکل قائم مقام ظہر کے ہو تو اب جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا جائز نہیں ہوا اورکسی سلف صالحین صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ و ائمہ مجتہدین و محدثین رحمہم اللہ سے یہ ظہر احتیاطی منقول نہیں ۔ نہ ان میں سے کسی نے پڑھا اور نہ حکم پڑھنے کا دیا، بلکہ یہ ظہر احتیاطی بدعت و محدث فی الدین ہے۔ پڑھنے والا اس کا عاصی و آثم ہوگا۔ کیوں کہ یہ ایک بدعت نکالی گئی ہے دین میں ۔ بعض متاخرین حنفیہ نے اس ظہر احتیاطی کو نکالا ہے، جیسا کہ ’’بحر الرائق شرح کنز الد قائق‘‘ میں ہے:
Flag Counter