Maktaba Wahhabi

460 - 702
[ ولید بن بکیر کو ابن حبان کے علاوہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو ان کو ثقہ کہتا ہو اور ابو حاتم نے ان کو شیخ کہا ہے۔ ختم شد] بہر حال یہ حدیث لائق حجت نہیں ۔ اور دوسری تعریف مصر جامع کی بنا برمسلک بلخی کے یہ ہے کہ جس جگہ تین مسجدیں یا زیادہ تین سے ہوں اور ایک ان میں بڑی مسجد ہو اور وہاں کے رہنے والے مکلف لوگ اس بڑی مسجد میں گنجائش نہ کرسکیں ، جیسا کہ اوپر ہدایہ کی عبارت سے معلوم ہوا۔ اور اکثر حنفیہ نے اسی مسلک بلخی کو مرحج ٹھہرا کر اسی پر فتویٰ دیا ہے، جیسا کہ درمختار میں ہے: ’’یشترط لصحتھا سبعۃ أشیاء: الأول المصر، وھو ما لا یسع أکبر مساجدہ أھلہ المکلفین بھا، وعلیہ فتوی أکثر الفقھاء لظھور التواني في الأحکام‘‘[1] انتھی [ اس کی صحت کے لیے سات چیزوں کی شرط ہے۔ اول: مصر۔ یہ وہ ہے کہ اس کی سب سے بڑی مسجد اس شہر کی آبادی کے لیے کافی نہ ہوتی ہو۔ اکثر فقہا کا اسی پر فتویٰ ہے احکام میں سستی کے ظہور کی بنا پر۔ ختم شد] اور ’’بحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں ہے: وعلیہ فتویٰ أکثر الفقھاء۔ قال أبو شجاع: ھذا أحسن ما قیل فیہ، وفي الولوالجیۃ: و ھو صحیح‘‘[2] [اسی پر اکثر فقہا کا فتویٰ ہے۔ ابو شجاع نے کہا ہے کہ اب تک جتنی باتیں کہی گئی ہیں ، ان میں احسن یہی ہے۔ فتاویٰ ولوالجیہ میں ہے کہ یہی صحیح ہے] اور شرح وقایہ میں ہے: ’’وإنما اختار ھذا دون التفسیر الأول لظھور التواني في أحکام الشرع لا سیما في إقامۃ الحدود في الأمصار‘‘[3] انتھی [پہلی تفسیر کے بالمقابل اس کو اس لیے اختیار کیا ہے کہ احکام شرع میں سستی کا غلبہ پایا جاتا ہے خاص طور سے شہروں میں اقامتِ حدود کے سلسلے میں ۔ ختم شد]
Flag Counter