Maktaba Wahhabi

461 - 702
اور ’’ارکان اربعہ‘‘ میں ہے: قال قائل: الفتویٰ في مذھبنا الروایۃ المختارۃ للبلخي‘‘ انتھی [ہمارے مذہب میں مفتی بہ قول بلخی کا ہے۔ ختم شد] لیکن یہ تفسیر بھی مصر جامع کی، جو مطابق مسلک بلخی کے ہے، کتبِ لغت یا سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی نہیں جاتی ہے کہ لائقِ حجت ہو، بلکہ جس وقت اسعد بن زرارہ نے اقامت جمعہ کی ہزم النبیت میں کیا تھا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی سالم میں جمعہ پڑھا تھا، اس وقت مدینہ منورہ میں مساجد متعدد نہ تھی سوائے دو ایک کے کہ بڑی مسجد میں گنجائش و انداز آدمیوں کے انٹنے کا کیا جاتا۔ دیکھو! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ جاتے تھے تو قبا میں ، جو قرب مدینہ میں واقع ہے، بنی عمرو بن عوف کے یہاں بیس دن کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت فرمائی اور بنا بر بعض دوسری روایتوں کے چار دن مدت اقامت کی تھی۔ یعنی دو شنبہ و سہ شنبہ، چہار شنبہ، پنج شنبہ اور انھیں کے مکان میں نماز پڑھتے رہے۔ پھر مسجد قبا میں نیو ڈالی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن روانہ ہوئے اور بنی سالم بن عوف کے یہاں اترے اور ان کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھی کہ وہ مسجد آج تک جمعہ مسجد کر کے مشہور ہے۔ علامہ سمہودی نے ’’خلاصۃ الوفاء بأخبار دار المصطفیٰ‘‘ میں لکھا ہے: ’’الفصل الثاني في مسجد قباء۔ في الصحیح عن عروۃ في خبر قدومہ صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال: فلبث في بني عمرو بن عوف بضع عشرۃ لیلۃ، وأسس المسجد الذي أسس علی التقوی۔ یعني بني عمرو بن عوف، کما في روایۃ عبد الرزاق عنہ، و لابن عائذ عن ابن عباس: مکث في بني عمرو بن عوف ثلاث لیال، و اتخذ مکانہ مسجدا فکان یصلي فیہ، ثم بناہ بنو عمر و بن عوف، فھو الذي أسس علی التقوی‘‘[1] انتھی [ صحیح میں عروہ کے واسطے سے مسجد قبا کے متعلق مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے درمیان تقریباً دس راتوں سے کچھ اوپر ٹھہرے اور اس مسجد کی بنیاد رکھی، جو تقوے پر مبنی تھی، یعنی عمرو بنو بن عوف، جیسا کہ
Flag Counter