[ہمیں حدیث بیان کی محمد بن عبداللہ بن نمیر نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں الولید بن بکیر نے بتایا، انھوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن محمد العدوی نے علی بن زید کے واسطے سے بتایا، وہ سعید بن مسیب کے واسطے سے اور وہ جابر بن عبداللہ کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا کہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر جمعہ فرض کیا ہے اس جگہ، آج کے دن، میرے اس مہینے میں ، اس سال، قیامت تک کے لیے، پس جس کسی نے میری زندگی میں یا میرے بعد درآں حالیکہ وہاں اس کے لیے امام عادل یا جائر موجود ہو، اسے چھوڑا …… الحدیث]
سو یہ قابل استدلال نہیں ۔ اس لیے کہ یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے۔ قابل حجت نہیں ۔ ایک راوی اس میں عبد اللہ بن محمد العدوی ہے۔ وہ متروک الحدیث ہے اور بعضوں نے واضعین سے اس کو شمار کیا ہے اور بعضوں نے منکرا الحدیث کہا ہے۔ میزان الاعتدال میں ہے:
’’عبداللّٰه بن محمد العدوي، قال البخاري: منکر الحدیث، وقال وکیع: یضع الحدیث، و قال ابن حبان: لا یجوز الاحتجاج بخبرہ‘‘[1] انتھی
[عبداللہ بن محمد العدوی کے بارے میں بخاری نے کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے۔ وکیع نے کہا کہ وہ حدیث وضع کرتا ہے اور ابن حبان نے کہا کہ اس کی خبر سے حجت قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ ختم شد]
اور بھی میزان میں بذیل ترجمہ ابان بن جبلہ مرقوم ہے:
’’نقل ابن القطان أن البخاري قال: کل من قلت فیہ: منکر الحدیث۔ فلا تحل الروایۃ عنہ‘‘[2]
[ ابن القطان نے نقل کیا ہے کہ بخاری نے کہا کہ ہر وہ شخص جس کو میں نے منکر الحدیث کہا ہے، اس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے]
اور بھی کہا ذہبی نے بذیل ترجمہ سلیمان بن داود الیمامی کے:
’’إن البخاري قال: من قلت فیہ: منکر الحدیث۔ فلا تحل روایۃ حدیثہ‘‘[3] انتھی
|