کے مسلمان مجتمع ہوجائیں اور کسی کو امامت کے لیے آگے بڑھادیں اور اس کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھ لیں تو جمعہ جائز ہے۔ اگر سلطان کی جانب سے کوئی اقامتِ جمعہ کے لیے مامور ہو تو یہ افضل ہے۔ میں کسی ایسی دلیل سے واقف نہیں جو سلطان کے حکم کی شرط کا فائدہ دیتی ہو۔ یہ جو ’’الہدایہ‘‘ میں ہے کہ جمعہ کی نماز جماعت سے قائم کی جاتی ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ جھگڑا واقع ہوجائے۔ تو اس سے شرط ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ وجوبِ جمعہ کے سلسلے میں مطلق نصوص ہیں ۔ پھر یہ نزاع مسلمانوں کے اجماع سے کسی ایک کو آگے بڑھا دینے کی صورت میں ختم ہوجائے گا، کیونکہ سلطان کا رتبہ بھی ایسا ہے کہ ہر ایک اس کا مطالبہ کرتا ہے، اس میں امکان ہے کہ نزاع واقع ہوجائے تو سلطان کا مقرر کرنا بھی درست نہ ہوا، لیکن یہ نزاع کسی ایک کو آگے بڑھادینے کی صورت میں تمام مسلمانوں کے اجماع سے ختم ہوتا ہے، جیسا کہ دیگر نمازوں کی جماعت میں ہوتا ہے کہ کسی شخص کے آگے بڑھادینے کی صورت میں نزاع پیدا ہوجاتا ہے، لیکن نمازیوں کے اجماع سے ختم بھی ہوجاتا ہے، ایسا ہی جمعہ کے معاملے میں ہے۔ پھر یہ کہ صحابہ نے امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فتنے کے زمانے میں جمعہ قائم فرمایا، دراں حالیکہ وہ امام حق محصور تھے اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ لوگوں نے ان سے اقامتِ جمعہ کے لیے اجازت طلب کی ہو، بلکہ عدم اذن ظاہر ہے، کیونکہ اصحابِ شر اور بدبختوں نے ان کو اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ پس معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک اقامتِ جمعہ کے لیے اذنِ سلطان غیرمشروط ہے۔ ختم شد]
اور ائمہ احناف اوپر اشتراط سلطان کے جو یہ روایت ابن ماجہ کی پیش کرتے ہیں :
’’حدثنا محمد بن عبد اللّٰه بن نمیر حدثنا الولید بن بکیر حدثني عبد اللّٰه بن محمد العدوي عن علي بن زید عن سعید بن المسیب عن جابر بن عبد اللّٰه قال: خطبنا رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم فقال: اعلموا أن اللّٰه قد افترض علیکم الجمعۃ في مقامي ھذا، في یومي ھذا، في شھري ھذا، من عامي ھذا إلی یوم القیامۃ فمن ترکھا في حیاتي أو بعدي و لہ إمام عادل أو جائر‘‘[1] الحدیث
|