عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے، وہ آئے اور انھوں نے نماز پڑھی پھر پلٹے اور خطبہ دیا۔ ختم شد۔ اس کی تخریج شافعی اور ابن حبان نے کی ہے اور رافعی نے شرح الوجیز میں کہا ہے کہ روایت بیان کی گئی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے جمعہ قائم کیا دراں حالیکہ عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے۔ حافظ ابن حجر نے تلخیص میں کہا ہے کہ رافعی نے اس کو قیاس سے اخذ کیا ہے، کیونکہ جو عید کی نماز قائم کرتا ہے، وہ جمعہ کی نماز بھی قائم کرسکتا ہے۔ سیف نے الفتوح میں ذکر کیا ہے کہ حصار کی مدت چالیس دن تھی، لیکن انھوں نے کہا کہ ان لوگوں کو کبھی طلحہ نماز پڑھاتے اور کبھی عبدالرحمان بن عدیس اور کبھی ان کے علاوہ کوئی اور ۔ ختم شد]
اور زرقانی شرح موطا میں ہے:
’’قال أبو عمر: إذا کان من السنۃ أن تقام صلٰوۃ العید بلا إمام فالجمعۃ أولی، و بہ قال مالک و الشافعي، قال مالک: للّٰه في أرضہ فرائض لا یسقطھا موت الوالي، و منع ذلک أبوحنیفۃ کالحدود، لا یقیمھا إلا السلطان، وقد صلی بالناس في حصر عثمان طلحۃ و أبو أیوب و سھل بن حنیف وأبو أمامۃ بن سھل وغیرھم، و صلی بھم علي صلوۃ العید فقط‘‘[1] انتھی
[ابوعمر نے کہا کہ جب یہ سنت ہے کہ نماز عید قائم کی جائے گی امام کے بغیر تو جمعہ اس حکم کا زیادہ مستحق ہے اور یہی بات مالک اور شافعی نے کہی ہے۔ مالک نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر اللہ کے لیے (بندوں پر) کچھ فرائض ہیں ، جسے والی کی موت ساقط نہیں کرسکتی۔ لیکن ابو حنیفہ نے اس سے انکار کیا ہے، جیسے حدود ہیں کہ اس کی اقامت سلطان ہی کرسکتا ہے، حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ حصر میں لوگوں کو نماز پڑھائی طلحہ نے، ابو ایوب نے، سہل بن حنیف نے اور ابو امامہ بن سہل و غیرہم نے، اور حضرت علی نے ان کو عید کی نماز بھی پڑھائی۔ ختم شد]
اور کہا شیخ سلام اللہ رحمہ اللہ نے ’’محلی شرح موطا‘‘ میں :
’’قال أبو عبید: ثم شہدت العید أي الأضحیٰ مع علي بن أبي طالب، و عثمان محصور في دارہ أیام الفتنۃ، و روي أنہ یؤم الناس أیضا في
|