جمعہ کو جو بنی سالم میں ادا فرمایا، یہ دونوں واقعے مبطل اس مسلک کرخی کے ہیں ، کیونکہ مدینہ منورہ قبل از قدوم اور بھی ابتداء زمانہ قدوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دار اقامت حدود و تنفیذ احکام مطابق مسلک کرخی کے ہرگز نہیں تھا۔ جیسا کہ کتب احادیث و سیر سے واضح و ظاہر ہے اور تفصیل اس امر کی کتاب ’’النور اللامع في أخبار صلوۃ الجمعۃ عن النبي الشافع‘‘ میں ان شاء اللہ تعالیٰ لکھی جائے گی۔ وفقني اللّٰه تعالی لإتمامہ کما وفقني لابتدائہ، وما ذلک علی اللّٰه بعزیر۔
اور منجملہ شرائط صحتِ جمعہ نزدیک ائمہ احناف کے اذنِ سلطان بھی ہے اور اس کی بھی کوئی اصلیت نہیں معلو م ہوتی ہے، بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ فتنہ میں چالیس دن محصور رہے اور وہ یقینا امام حق تھے۔ بایں ہمہ حضرت علی و طلحہ و ایوب و سہل بن حنیف و ابو امامہ رضی اللہ عنہم وغیرہم نماز عیدین وغیرہ پڑھاتے رہے اور اذن طلب کرنا ان لوگوں کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول نہیں ۔
جیسا کہ موطاامام مالک میں ہے:
’’مالک عن ابن شھاب عن أبي عبید مولی بن أزھر قال: شھدت العید مع علي بن أبي طالب، وعثمان محصور، فجاء فصلی، ثم انصرف فخطب‘‘[1] انتھی
و ھکذا أخرجہ الشافعي وابن حبان،[2] و قال الرافعي في شرح الوجیز: ’’روي أن علیا أقام الجمعۃ، وعثمان محصور‘‘[3]
قال الحافظ ابن حجر في التلخیص: ’’وکأن الرافعي أخذہ بالقیاس لأن من أقام العید لا یبعد أن یقیم الجمعۃ فقد ذکر سیف في الفتوح أن مدۃ الحصار کانت أربعین یوما لکن قال: کان یصلي بھم تارۃ طلحۃ، و تارۃ عبد الرحمن بن عدیس، و تارۃ غیرھما‘‘[4] انتھی
[مالک، شہاب کے واسطے سے، وہ ابو عبید مولی بن ازہر کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ میں نے عید کی نماز علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھی اور
|