[ ہمارے مذہب میں روایات مختلف ہیں ۔ ظاہر الروایۃ سے پتا چلتا ہے کہ (مصر جامع) ایک ایسا شہر /قصبہ جس کا ایک امام اور ایک قاضی ہو جو حدود قائم کرتا ہو۔ ’’فتح القدیر‘‘ میں ہے کہ بلدۃ وہ ہے جس میں گلیاں اور بازار ہوں اور ایک والی ہو جس سے مظلوم کو ظالم سے انصاف ملے اور ایک عالم ہو جس کی طرف حوادث کے وقت رجوع کیا جاتا ہو۔ یہ تعریف زیادہ مخصوص ہے۔ ان لوگوں نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول ’’جمعہ اور تشریق صرف مصر جامع میں ہے‘‘ کو محمول کیا ہے ان دونوں روایتوں میں سے ایک روایت پر، کیوں کہ مصر جامع کی تعریف مکمل نہیں ہوتی ہے مگر ان خصوصیات کے ساتھ۔ پہلی تفسیر کے مطابق مصر وہ ہے جس کا والی کافر ہو، اس میں جمعہ واجب نہیں ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق اس شہر میں جمعہ واجب نہیں ہے جس کا والی ظالم ہو اور ظالم سے مظلوم کو انصاف نہ ملتا ہو۔ یہ دونوں روایات رد کردی جائیں گی، کیونکہ صحابہ و تابعین نے یزید کے زمانے میں جمعہ ترک نہیں کیا، اس کے باوجود کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت بڑا ظالم تھا، جس نے اہل بیت کی حرمت کو تار تار کیا اور وہ اپنی ان حرکتوں پر مصر رہا اور کوئی وقت ایسا نہیں گزرا جبکہ اس نے اپنے بے پناہ مظالم کے ذریعے صحابہ کا خون نہ بہایا ہو۔ رہا معاملہ ظالم سے مظلوم کی داد رسی کا تو اس سے اس کی دور دور تک امید نہیں ۔ تو یہ بات جان لو کہ اقامتِ حدود کی شرط اور ظالم سے مظلوم کی داد رسی کی شرط وجوبِ جمعہ کے منافی ہے، حالانکہ جمعہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اقامتِ حدود اور مظلوم کی داد رسی کے معاملے میں بنوامیہ کے دور میں بڑی سستی آگئی تھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سوائے عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں اور بعض عباسی خلفا کے عہد امارت میں ، ان حالات میں صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے کسی نے بھی جمعہ ترک نہیں کیا۔ پس یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ دونوں شرطیں نہیں ہیں ۔ ختم شد]
اور علاوہ اس کے اسعد بن زرارہ نے قبل قدوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز جمعہ جو ہزم النبیت میں ہمراہ جماعت صحابہ ادا کیا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت قدوم مدینہ منورہ بعد خروج از قبا کے صلوٰۃ
|