Maktaba Wahhabi

451 - 702
بنی امیہ میں حدود میں نہایت سستی ہوگئی اور انصاف ظالم و مظلوم کا بالکل مفقود ہوگیا۔ ہاں البتہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی خلافت اور بعض عباسیہ کی امارت میں اقامت حدودوغیرہ تھی۔ پھر اس کے ساتھ بھی کہیں یہ منقول نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ و تبع تابعین نے نماز جمعہ ترک کیا ہو، ورنہ ترک کرنا ان لوگوں کا ضرور منقول ہوتا۔ دیکھو! مولانا عبد ا لعلی رحمہ اللہ (بحر العلوم) لکھنوی نے ’’ارکان اربعہ‘‘ میں لکھا ہے: ’’اختلف الروایات في مذھبنا، ففي ظاھر الروایات: بلدۃ بھا إمام وقاض، یصلح لإقامۃ الحدود، و في فتح القدیر: بلدۃ فیھا سکک و أسواق ووال ینتصف المظلوم من الظالم، و عالم یرجع إلیہ في الحوادث، و ھذا أخص، وحملوا قول أمیر المؤمنین علي رضي اللّٰه عنہ ما رواہ عبدالرزاق: لا تشریق و لا جمعۃ إلا في مصر جامع۔ علی أحد ھٰذین الروایتین، فإن المصر الجامع لا یکون إلا ما ھذا شأنہ، و علی التفسیر الأول المصر الذي والیہ کافر، لا تجب فیہ الجمعۃ، وعلی التفسیر الثاني لا تجب في المصر الذي والیہ ظالم، لا ینتصف المظلوم من الظالم، و یرد ھذین الروایتین أن الصحابۃ و التابعین لم یترکوا الجمعۃ في زمان یزید مع أنہ لا شبھۃ في أنہ کان من أشد الناس ظلما، لأنہ ھتک حرمۃ أھل البیت، وبقي مصرا علیہ، و لم یمر علیہ وقت إلا کان ھو بصدد الظلم من إباحۃ دماء الصحابۃ الأخیار، وأما انتصاف المظلوم من الظالم فبعید منہ کل البعد، فافھم، و إن شرط إقامۃ الحدود و انتصاف المظلوم من الظالم ینفي وجوب الجمعۃ مع أنھا من شعائر الإسلام، و نحن نقول: قد وقع التھاون في إقامۃ الحدود وانتصاف المظلوم من الظالم في إمارۃ بني أمیۃ بعد وفاۃ معاویۃ إلا في زمان عمر بن عبد العزیز، و في إمارۃ بعض العباسیۃ، و لم یترک الجمعۃ أحد من الصحابۃ و التابعین و من تبعھم فعلم أنھما لیس بشرطین‘‘ انتھٰی
Flag Counter