چنانچہ بنا بر اسی اصول مقررہ کے کتنی احادیث صحیحہ مرفوعہ رد کی گئی ہیں ؟ اور پھر باوجود اس شدت کے یہ ایک اثر جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے اور خبر مرفوع آحاد کے درجہ میں بھی نہیں ہے، اس سے نص قرآن پر زیادتی اور اس کی تخصیص کی جا تی ہے اور اس کے حکم عام کا یہ اثر ناسخ ٹھہر ایا جاتا ہے۔ یعنی نص قرآن میں حکم مطلق ہے واسطے صلوٰۃ جمعہ کے شہر و قصبات و دیہات ہر جگہوں میں ۔ پھر اس حکم مطلق پر یہ زیادتی کرنا کہ دیہات میں صلوٰۃ جمعہ جائز نہیں اور عموم حکم قرآن کا ناسخ ٹھہرانا، بالکل مخالف ہے ان کے اس اصول مقررہ کے۔ وعلی کل حال یہ اثر موقوف قابل احتجاج نہیں ، کیونکہ اثر موقوف کو قوت معارضہ خبر مرفوع کے نہیں ۔ اور علاوہ اس کے دوسرے اجلائے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مثل حضرت عمر و عثمان و ابن عمرو ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کے خلاف اس اثر کے ثابت ہے۔ یعنی ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیہات میں جمعہ پڑھنے کی اجازت دی ہے اور ان کے زمانہ میں گاؤں میں جمعہ پڑھا گیا ہے، جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ میں مروی ہے اور بیہقی نے کتاب المعرفہ میں صحیح ابن خزیمہ سے نقل کیا ہے۔
قال البیھقي: ’’روی محمد بن إسحاق بن خزیمۃ عن علي بن خشرم عن عیسی بن یونس عن شعبۃ عن عطاء بن أبي میمونۃ عن أبي رافع أن أبا ھریرۃ کتب إلی عمر یسألہ عن الجمعۃ، وھو بالبحرین، فکتب إلیھم أن جمعوا حیث ما کنتم۔ قال البیھقي: معناہ أي قریۃ کنتم فیہا، لأن مقامھم من البحرین إنما کان في القری۔ قال أحمد (یعني البیھقي): وھذا الأثر إسنادہ حسن‘‘[1] انتھی
[ بیہقی نے کہا کہ محمد بن اسحاق بن خزیمہ نے علی بن خشرم کے واسطے سے روایت کی، انھوں نے عیسیٰ بن یونس کے واسطے سے، انھوں نے شعبہ کے واسطے سے، انھوں نے عطا بن ابو میمونہ کے واسطے سے اور وہ ابو رافع کے واسطے سے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے جمعہ کے بارے میں لکھ کردریافت کیا، جبکہ وہ بحرین میں تھے، تو انھوں نے ان کو جواب دیا کہ جہاں بھی آپ لوگ ہیں جمعہ قائم کریں ۔ بیہقی نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم جس گاؤں یا قریہ میں بھی ہو۔ کیونکہ وہ لوگ بحرین کے مقام پر گاؤں میں تھے۔ بیہقی
|