[قرآن سے معارضے کی صورت میں خبر واحد کو رد کردیا جائے گا، کیونکہ قرآن مقدم ہے اس لیے کہ وہ قطعی اور متواتر النظم ہے۔ اس کے متن میں شبہہ ہے اور نہ اس کی سند میں ۔ختم شد]
اور بھی تلویح میں ہے:
’’لا یجوز تخصیص الکتاب بخبر الواحد، لأن خبر الواحد دون الکتاب، لأنہ ظني، و الکتاب قطعي، فلا یجوز تخصیصہ لأن التخصیص تفسیر، و تفسیر الشيء لا یکون إلا بما یساویہ أو یکون فوقہ‘‘[1] انتھی
[ خبر واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں ہے، کیونکہ خبر واحد قرآن سے کم تر ہے اور اس لیے بھی کہ وہ ظنی ہے اور قرآن قطعی، تو اس کی تخصیص جائز نہیں ہے، کیونکہ تخصیص تفسیر ہوتی ہے اور کسی چیز کی تفسیر اس کے مساوی یا اس سے اوپر کے درجے کی چیز ہی سے ہوسکتی ہے۔ختم شد]
اور اصول الشاشی میں ہے:
’’شرط العمل بخبر الواحد أن لا یکون مخالفاً للکتاب و السنۃ المشھورۃ‘‘[2] انتھی
[ خبر واحد پر عمل کی شرط یہ ہے کہ وہ کتاب اﷲ اور سنت مشہورہ کے مخالف نہ ہو۔ ختم شد]
اور نور الانوار میں ہے:
’’ونسخ وصف في الحکم بأن ینسخ عمومہ و إطلاقہ، ویبقی أصلہ، و ذلک مثل الزیادۃ علی النص فإنہا نسخ عندنا، ولا یجوز عندنا إلا بالخبر المتواتر والمشھور‘‘ انتھی
[حکم میں کسی وصف کا نسخ اس طور سے ہو کہ اس کے عموم اور اطلاق دونوں کو منسوخ کردے اور اس کی اصل باقی رہے۔ یہ نص پر زیادتی کے مثل ہے جو ہمارے نزدیک نسخ ہے اور یہ ہمارے نزدیک خبر متواتر اور مشہور کے بغیر جائز نہیں ہے۔ ختم شد]
|