Maktaba Wahhabi

445 - 702
واسطے سے کہ نہ جمعہ ہے اور نہ تشریق، الحدیث۔ عینی نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے] جواب اس کا یہ ہے کہ اس قول کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ۔ پس جب قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہوا، پس یہ اثر بمقابل آیتِ قرآن و حدیث مرفوع: (( الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم )) [1] کے حجت نہیں ہے۔ البتہ یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بچند طرق مروی ہے۔ بعض سند اس کی ضعیف و بعض صحیح ہے، جیسا کہ بیان اس کا مفصلاً گزرا اور پھر بعد صحتِ سند یہ معلوم نہیں ہے کہ مصر جامع کی تفسیر کیاہے؟ اسی واسطے کہا امام شافعی نے: ’’ولا ندري ما حد المصر الجامع؟‘‘[2] أخرجہ البیھقي في المعرفۃ۔ [ہمیں نہیں معلوم کہ مصر جامع کی تفسیر کیا ہے؟ اس کی تخریج بیہقی نے المعرفہ میں کی ہے] اور جو کہا شیخ ابن ا لہمام نے فتح القدیر میں : ’’وکفی بعلي قدوۃ وإماما‘‘[3] [ علی رضی اللہ عنہ کا قدوہ اور امام کے طور پر ہونا کافی ہے] وہ قابل تسلیم نہیں ہے۔ لأنہ للاجتھاد فیہ مسرح فلا ینھض للاحتجاج بہ۔ [کیونکہ اس میں اجتہاد کی گنجایش ہے، اس لیے اس کو حجت نہیں بنایا جاسکتا] اور تعجب سخت و مقام حیرت ہے کہ ائمہ احناف کی تمامی کتبِ اصول مالا مال ہے اس بات سے کہ خبر آحاد سے تخصیص نص قرآن شریف کی نہیں ہوتی ہے اور زیادتی قرآن پر خبر آحاد سے جائز نہیں ، جیسا کہ تلویح میں ہے: ’’وإنما یرد خبر الواحد في معارضۃ الکتاب لأن الکتاب مقدم لکونہ قطعیاً متواتر النظم، لا شبھۃ في متنہ ولا سندہ‘‘[4] انتھی
Flag Counter