ہوا ہے، حتیٰ کہ یہ کھلواڑ عجب کی حد کو بھی پار کرگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جمعہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض میں سے ایک فریضہ، اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار اور نمازوں میں سے ایک نماز ہے اور جو گمان کرے اس میں ان اعتبارات کا جن کا اعتبار دوسری نمازوں میں نہیں ہے تو اس سلسلے میں اس سے کوئی بات بلا دلیل نہیں سنی جائے گی، البتہ جمعہ کی نماز کے ساتھ خطبہ مخصوص ہے اور خطبہ محض موعظت ہے، پس اگر کسی جگہ دو آدمی سے زیادہ نہیں ہیں تو ان میں ایک کھڑا ہوجائے گا اور خطبہ دے گا اور دوسرا سماعت کرے گا، پھر دونوں کھڑے ہوں گے اور جمعہ کی نماز پڑھیں گے۔ ان کا کلام انھی کے الفاظ میں ختم ہوا]
مگر حنفیوں کا دعویٰ ہے کہ ماخذ ان شرائط و قیودات کا وہ اثر ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
’’لا تشریق ولا جمعۃ ولا فطر ولا أضحی إلا في مصر جامع‘‘
[ نہ تشریق ہے نہ جمعہ ہے نہ فطر ہے اور نہ قربانی ہے مگر مصر جامع میں ]
لیکن معلوم کر نا چاہیے کہ یہ قول حدیث مرفوع نہیں ہے، جیسا کہ فرمایا امام بیہقی نے ’’معرفۃ السنن و الآثار‘‘ میں :
’’قال الشافعي في القدیم: وقال بعض الناس: لا تجوز الجمعۃ إلا في مصر جامع، وذکر فیہ شیئا ضعیفا، قال أحمد: إنما یروی ھذا عن علي فأما النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم فإنہ لا یروی عنہ في ذلک شيء‘‘[1]
[شافعی نے قدیم قول میں کہا ہے: ’’بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جمعہ جائز نہیں ہے مگر مصر جامع میں اور اس بارے میں ضعیف چیز کا ذکر کیا ہے۔ احمد نے کہا کہ اس کی روایت صرف علی کے واسطے سے کی جاتی ہے اور رہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت کوئی چیز مروی نہیں ہے۔ ختم شد]
اور تخریج زیلعی میں ہے:
’’قلت: غریب مرفوعا، وإنما وجدناہ موقوفا علی علي‘‘[2]
|