فتقربوا إلی اللّٰه برکعتین، قال: فھو أول من جمع حتیٰ قدم النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم المدینۃ فجمع عند الزوال من الظھر، وأظھر ذلک‘‘[1] انتہیٰ کلامہ
و قال الإمام البیھقي في معرفۃ السنن و الآثار:
’’و روینا عن معاذ بن موسیٰ بن عقبۃ و محمد بن إسحاق أن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم حین رکب من بني عمرو بن عوف في ھجرتہ إلی المدینۃ مر علی بني سالم، و ھي قریۃ بین قباء والمدینۃ، فأدرکتہ الجمعۃ فصلی فیھم الجمعۃ، وکانت أول جمعۃ صلاھا رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم حین قدم‘‘[2] انتھی (عون المعبود، ص ۴۱۵، ج۱)
’’وفیہ أیضا عن أبي حمزۃ عن ابن عباس قال: إن أول جمعۃ جمعت في الإسلام بعد جمعۃ جمعت في مسجد رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم بالمدینۃ لجمعۃ جمعت بجواثا قریۃ من قری البحرین۔ قال عثمان قریۃ من قریٰ عبد القیس، أخرجہ البخاري في الصحیح، وکانوا لا یستبدون بأمور الشرع لجمیل نیاتھم في الإسلام فالأشبہ أنھم لم یقیموا في ھذہ القریۃ إلا بأمر النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم ‘‘[3]انتھی کلام البیھقي رحمہ اللّٰه تعالیٰ (عون ص۴ ۴۱ ج ۱)‘‘
[ حافظ ابن حجر نے ’’التلخیص الحبیر‘‘ (ص: ۱۳۳) میں کہا ہے کہ طبرانی نے ’’الکبیر‘‘ اور ’’الاوسط‘‘ میں ابو مسعود انصاری کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ مہاجرین میں سے جو لوگ مدینے آئے، ان میں مصعب بن عمیر بھی تھے اور یہ پہلے شخص تھے، جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل جمعے کے روز لوگوں کو جمعے کے لیے اکٹھا کیا اور وہ بارہ افراد تھے۔ اس حدیث کی سند میں صالح بن ابوالاخضر ہیں ، جو ضعیف ہیں ۔ دونوں احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ اسعد حکم دینے والے تھے اور مصعب امام تھے۔ عبد بن حمید نے اپنی تفسیر میں ابن سیرین کے واسطے سے روایت بیان کی ہے، انھوں نے کہا کہ اہل مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل اور جمعے کے نزول سے قبل جمع ہوئے تو انصار نے کہا کہ یہود کے لیے سات دنوں میں ایک دن مخصوص ہے، پھر
|