Maktaba Wahhabi

434 - 702
’’عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے پہلا جمعہ جو پڑھا گیا اسلام میں بعد اس جمعہ کے جو مسجد نبوی میں ، وہ جمعہ ہے جو پڑھا گیا جواثا میں ۔ جواثا ایک گاؤں ہے بحرین کے گاؤں میں سے۔ عثمان نے کہا: وہ گاؤں ہے عبد القیس کے گاؤں میں سے۔‘‘ کہا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (۱/ ۴۸۶) میں : ’’قولہ: بجواثی من البحرین، وفي روایۃ وکیع: قریۃ من قری البحرین، و في أخری عنہ: من قری عبد القیس، و الظاھر أن عبد القیس لم یجمعو إلا بأمر النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم لما عرف من عادۃ الصحابۃ من عدم الاستبداد بالأمور الشرعیۃ في زمن نزول الوحي، ولأنہ لوکان ذلک لا یجوز لنزل فیہ القرآن کما استدل جابر و أبو سعید علی جواز العزل فإنھم فعلوہ والقرآن ینزل، فلم ینھوا عنہ، وحکی الجوھري والزمخشري وابن الأثیر أن جواثی اسم حصن بالبحرین، و ھذا لا ینافي کونھا قریۃ، و حکی ابن التین عن أبي الحسن اللخمي أنھا مدینۃ، وما ثبت في نفس الحدیث من کونھا قریۃ، صحیح مع احتمال أن تکون في الأول قریۃ ثم صارت مدینۃ‘‘ انتھی [جواثا بحرین سے ہے۔ وکیع کی ایک روایت میں ہے کہ بحرین کے گاؤں میں سے ایک گاؤں ہے۔ انھیں سے دوسری روایت میں ہے کہ عبدالقیس کے گاؤں میں سے ہے اور ظاہر ہے کہ عبدالقیس جمعہ نہیں پڑھتے تھے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے، کیونکہ صحابہ کی عادت معروف تھی کہ امورِ شریعت میں نزولِ وحی کے وقت وہ بذات خود کوئی کام شروع نہیں کرتے تھے، اور اس لیے بھی کہ اگر ایسا فعل جائز نہ ہوتا تو قرآن میں اس کا نزول ہوتا، جیسا کہ جابر اور ابوسعید رضی اللہ عنہما نے عزل کے جواز کے سلسلے میں استدلال کیا ہے، کیونکہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور قرآن نازل ہورہا تھا اور ان کو منع نہیں کیا گیا۔ جوہری و زمخشری اور ابن الاثیر نے بیان کیا ہے کہ جواثی بحرین میں ایک قلعے کا نام ہے، لیکن یہ گاؤں ہونے کے منافی نہیں ہے۔ ابن التین نے ابو الحسن لخمی کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ یہ ایک شہر ہے۔ لیکن اسی حدیث میں اس کے گاؤں ہونے کا ذکر ہے تو یہ احتمال ہے کہ
Flag Counter