پس آیت کریمہ اور ان احادیث مرقومہ بالا سے صاف معلو م ہوا کہ نماز جمعہ کی فرض عین ہے ہر مرد مسلمان صحیح حر بالغ مقیم پر خواہ شہر میں ہو خواہ دیہات میں اور اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ شہروں میں نماز جمعہ ادا کرو اور گاؤں میں نہ پڑھو۔ بلکہ جمعہ کی فرضیت آیت اور حدیث سے مطلق ثابت ہے۔ اس میں شہر کی قید نہیں ہے۔ پھر شہر کی قید بڑھانا زیادتی ہے کتاب اللہ تعالیٰ پر اور نزدیک حنفیوں کے وہ جائز نہیں ہے، مگر حدیث مشہور سے، جیسا کہ بیان مفصل اس کا آگے آتا ہے۔ پس جب فرضیت اس کی علی العموم ثابت ہوئی، شہر اور دیہات ہر جگہوں میں ، پھر جو شخص باوجود ثبوت فرضیت کے دیہات میں جمعہ ادا نہ کرے، اس کی شان میں یہ وعید شدید وارد ہوئی ہے:
’’عن أبي الجعد الضمري، وکانت لہ صحبۃ، أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( من ترک ثلاث جمع تھاوناً بھا طبع اللّٰه علی قلبہ )) [1] رواہ أبو داود و الترمذي والنسائي‘‘
’’فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص تین جمعے چھوڑ دے گا سستی سے، مہر کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کے دل پر۔‘‘
’’وعن أبي ھریرۃ و ابن عمر أنھما سمعا النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم یقول علی أعواد منبرہ: (( لینتھین أقوام عن ودعھم الجمعات أو لیختمن اللّٰه علی قلوبھم، ثم لیکونن میں الغافلین )) [2] رواہ مسلم، و رواہ أحمد والنسائي من حدیث ابن عمر و ابن عباس‘‘[3]
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر فرما تے تھے کہ باز آئیں لوگ نماز جمعہ کے چھوڑ دینے سے یا مہر کر دے گا اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر، پھر ہو جائیں گے وہ غافلوں سے۔‘‘
’’وعن ابن مسعود أن رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال لقوم یتخلفون عن الجمعۃ: ((لقد ھممت أن آمر رجلا یصلي بالناس ثم أحرق علی رجال
|