Maktaba Wahhabi

417 - 702
’’عن أبي قتادۃ قال: کان النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم یقرأ في الظھر في الأولیین بأم الکتاب و سورتین، و في الرکعتین الآخریین بأم الکتاب، ویسمعنا الآیۃ أحیانا‘‘[1] (متفق علیہ) [ابو قتادہ کے واسطے سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور آخر کی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ، اور بسا اوقات ہمیں آیات سناتے تھے] بخلاف حدیث آمین بالجہرکے اس میں کسی راوی نے یہ نہیں کہا ہے کہ امر مقرر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہی اسرار تھا، صرف احیاناً آ پ نے جہر کیا ہے۔ اگر ایسی بات ہوتی تو کوئی راوی بھی تصریح اس امر کی ضرورت کرتے، کیونکہ ایسی جگہوں میں تصریح کی حاجت ہے، پس معلوم ہوا کہ امر مقرر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین میں جہر تھا نہ اسرار۔ اور بعض نافہمیدہ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حکم آمین جہری کا اوائل اسلام میں تھا، پھر حکم جہر کا منسوخ ہوگیا۔ تو یہ فہم ان کا غلط ہے، کیونکہ وائل بن حجر صحابی متاخرالاسلام ہیں اور ان کا اس حدیث کو روایت کرنا دلیل قاطع ہے اس امر پر کہ حکم منسوخ نہیں ہوا۔ کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں : ’’وفیہ رد علی من أومأ إلی النسخ، فقال: إنما کان صلی اللّٰه علیہ وسلم یجہر بالتأمین في ابتداء الإسلام لیعلمھم، فإن وائل بن حجر أسلم في أواخر الأمر‘‘[2] انتھی [اس میں ان لوگوں کے خلاف رد ہے جنھوں نے نسخ کا اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتداے اسلام میں آمین کہتے تھے، تاکہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں ، کیونکہ وائل بن حجر آخری زمانے میں اسلام لائے۔ ختم شد] قولہ: حدیث نمبر ۵: جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہود کو تمھارے آمین کہنے پر حسدہے۔ اس کا جواب یہ ہے: 1۔تو اس سے جہر ثابت نہیں ہوتا اور حسد کے لیے علم شرط ہے نہ جہر۔ 2۔یہ روایات ضعیفہ ہیں ۔ ان کے راوی اکثر ضعیف لوگ ہیں ۔
Flag Counter