Maktaba Wahhabi

416 - 702
{ وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا} پڑھتے ہوئے سنا] حدیث سوم: ’’عن البراء قال: سمعت النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم یقرأ في العشاء { وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنَ} [1] (متفق علیہ) [براء سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عشاء میں { وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنَ} پڑھتے ہوئے سنا] حدیث چہارم: ’’عن عقبۃ بن عامر أن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم أمّھم بالمعوذتین في صلاۃ الصبح، رواہ ابن حبان في صحیحہ، وأحمد في مسندہ، و ابن أبي شیبۃ في مصنفہ، والطبراني في معجمہ، و الحاکم في المستدرک‘‘[2] [عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں معوذ تین پڑھ کر امامت کی۔ اس کی روایت ابن حبان نے اپنی صحیح میں کی ہے، احمد نے اپنی مسند میں کی ہے، ابن ابی شیبہ نے مصنف میں کی ہے، طبرانی نے اپنی معجم میں کی ہے اور حاکم نے ’’المستدرک‘‘ میں کی ہے] کیونکہ ان احادیث میں صرف یہ مضمون ہے کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے سنا، پس بنا برقاعدہ آپ کے یہ لازم نہیں آتا کہ ہمیشہ ایسا کیا کرتے تھے، بلکہ احیاناً ان اوقات میں قراء ت بجہر کیا کرتے تھے اور حال یہ کہ کوئی فرد بشر امت محمدیہ ۔علی صاحبہا أفضل الصلوۃ والتحیۃ۔ سے اس کا قائل نہیں ۔ پس آپ یا اس کو تسلیم کیجیے یا اس باطل ومردود دعوے سے اپنے باز آئیے۔ اور ظہر کی قراء ت میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احیاناًبعض آیت کے ساتھ جہر کیا ہے، اس جہر پر اس آمین کی جہر کو قیاس کرنا دلیل غباوت کی ہے، کیونکہ حدیث ابوقتادہ کی صاف و آشکارا اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ امر مقرر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صلوۃ ظہر میں صرف اسرار ہی تھا۔ فقط احیاناًبعض آیت کے ساتھ جہر فرماتے، تاکہ معلوم ہوجائے مقتدیوں کو قراء ت فرمانا آپ کا۔ دیکھو! پوری حدیث ابو قتاوہ کی یہ ہے:
Flag Counter