3۔ اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ایسا کرتے تھے اورمتنازع فیہ یہی ہے۔ ورنہ احیاناً تو ظہرکی نمازمیں قراء ت پکار کر تجویزہوسکتی ہے۔‘‘
أقول: جواب وجہ اول کا یہ ہے کہ اپنے منہ میں لگام دیجیے، الفاظ بیہودہ زبان سے نہ نکالیے۔ عبدالجبار بن وائل راوی ثقہ ہے۔ اس کی شان میں ایسے الفاظ ناملائم کہنا کمال بے ادبی ہے۔
غایۃ ما في الباب یہ حدیث اس سند خاص سے منقطع ٹھہرے گی، مگر یہ کچھ مضر مدعا نہیں ۔ اس لیے کہ حدیث وائل بن حجر کی متعدد طرق سے بسند صحیح متصل مروی ہے، چنانچہ بیان بعض ا سانید کا علی وجہ التفصیل اوپر گزرا۔ فلا نعید الکلام بذکرھا
اور جواب وجہ دوم کا یہ ہے کہ وائل بن حجر سے خفیہ آمین کی جو حدیث ہے وہ ضعیف ہے، قابل حجت نہیں اور تحقیق حقیق اس امر کی اوپرگزری۔ وہاں ملاحظہ کیجیے، اب حاجت تکرار نہیں ۔
اور جواب وجہ سوم کا یہ ہے کہ بموجب اس قاعدہ آپ کے یہ بات لازم آتی ہے کہ جن جن جگہوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہر ثابت ہے، وہ سب احیاناً اور اتفاقات پر حمل کیا جاوے گا، جب تک کہ ان احادیث میں معنی لفظ مداومت کے نہ ہوں ۔ پس اس بنا پر ان احادیث اربعہ مندرجہ ذیل کو کہ جو جہر قراء ت فجر وعشاء ومغرب میں وارد ہیں ، ان کو بھی اسی اتفاقات اور احیاناً پر حمل کیجیے۔
حدیث اول: ’’عن جبیر بن مطعم قال: سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم یقرأ في المغرب بالطور‘‘[1] (متفق علیہ)
[ جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں سورت طور پڑھتے ہوئے سنا۔ متفق علیہ]
حدیث دوم : ’’عن أم الفضل قال: سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم یقرأ في المغرب بالمرسلات عرفا‘‘[2] (متفق علیہ)
[ ام الفضل سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں
|