تھے اور اس کو وہ سنت سمجھتے تھے۔ ختم شد]
پس ثابت ہوا کہ ان اثروں میں سے یہ قول یعنی ’’آمین دعاء‘‘ یہ تو البتہ قول عطاء تابعی کا ہے، باقی رہا وہ جو عطاء نے ابوہریرہ و عبداللہ بن زبیر اور سارے مقتد یو ں کے آمین کہنے کی حکایت کی، وہ ظاہرہے کہ عطاء کا قول نہیں ہے، بلکہ عطاء مخبر اور حاکی ہیں عبداللہ بن الزبیر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے فعل کے اور فرق درمیان قول و حکایت کے اوپر معلوم ہوچکا۔ اب آپ کا یہ جملہ کہ ’’یہ صرف عطاء کا قول ہے نہ قرآن ہے نہ حدیث۔‘‘ آپ ہی پر عائد ہوا، کیونکہ عطاء کا قول اس میں صرف یہی ہے: ’’آمین دعاء‘‘ اب آپ اس کو تسلیم کریں یا خلافِ قرآن و حدیث کے بتلادیں یا جو الفاظ چاہیں کہیں ، یا آپ کو اختیار ہے کہ فعلِ ابوہریرہ و عبداللہ بن الزبیر و ابن عمر رضی اللہ عنہم کو بھی خلافِ قرآن وحدیث کے قرار دیویں ۔ میں تو ایسے الفاظ کو زبان پر نہیں لاسکتا ہوں ۔ آپ ہی گستاخی چاہیں کرلیویں ۔
اور نمبر (۳) کی حدیث کو روایت کیا بیہقی نے، جیسا کہ کہا حا فظ ا بن حجر نے فتح الباری میں :
’’وروی البیھقي من وجہ آخر عن عطاء قال: أدرکت مائتین من أصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم في ھذا المسجد إذا قال الإمام { وَلَا الضَّآلِیْنَ} سمعت لھم رجۃ بآمین‘‘[1]
[بیہقی نے عطاء کے واسطے سے ایک دوسرے طریق سے روایت کی ہے کہ انھوں نے یعنی عطاء نے کہا کہ میں نے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے دو سو کو اس مسجد میں پایا کہ امام جب ’’ولا الضالین‘‘ کہتا توگونج کے ساتھ آمین کہتے]
اور یہ کہنا آپ کاکہ ’’علاوہ اس کے بیہقی کی کتاب حدیث کی کتابوں میں گھٹیل ہے۔‘‘ یہ دریدہ دہنی ہے اور دعویٰ بلا دلیل۔ اگر بیہقی کی کتابوں میں بعض احادیث ضعیف و منکر ہوں تو اس سے ساری کتاب کا گھٹیل ہونا لازم نہیں آتا، چہ جائیکہ بیہقی کی تصنیف میں یہ خوبی ہے کہ اکثر حدیث کی صحت و سقم پر متنبہ کردیتے ہیں ۔ اس کا اعتبار کرکے ان کی کتابیں مرجح ٹھہریں گی ان کتابوں پر جو کتابیں اس خوبی کے ساتھ موصوف نہ ہوں یا جن کے مصنف نے التزام اس کی صحت کا نہ کیا ہو۔ اور اگر مطلق ایراد بعض احادیث ضعیفہ سے کسی محدث کی کتاب گھٹیل شمار کی جاوے تو پھر شرح معانی الآثار اور مشکل الآثار اور جو سوائے ا س کے تصانیف امام ابو جعفر طحاوی اور دوسرے ائمہ محدثین کی ہیں جن
|