عن ثابت عن أبي رافع أن أبا ھریرۃ یؤذن لمروان بن الحکم فاشترط أن لا یسبقہ بالضالین حتی یعلم أنہ دخل في الصف‘‘[1] انتھی
[ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے دوسرے طریق سے بھی روایت آئی ہے جس کی تخریج بیہقی نے حماد کے طریق سے کی ہے، انھوں نے ثابت کے واسطے سے اور وہ ابو رافع کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروان کے لیے اذان دیتے تھے، پس انھوں نے شرط لگائی کہ{ الضَّآلِیْنَ} کہنے میں سبقت نہ کریں ، یہاں تک کہ ان کے علم میں یہ آجائے کہ وہ صف میں شامل ہوگئے ہیں ۔ ختم شد]
اور اثر چہارم ابن عمر کو عبد الرزاق نے مصنف میں نافع سے روایت کیا ہے، جیسا کہ کہا حافظ نے فتح الباری میں :
’’وصلہ عبد الرزاق عن ابن جریج أخبرنا نافع أن ابن عمر کان إذا ختم أم القرآن قال: آمین، لا یدع أن یؤمن إذا ختمہا، و یحضہم علی قولہا، قال: و سمعت منہ في ذلک خیرا، و قولہ: خیرا۔ بسکون التحتانیۃ أي فضلا و ثوابا، وھي روایۃ الکشمیھني، و لغیرہ خبرا۔ بفتح الموحدۃ أي حدیثا مرفوعا، و یشعر بہ ما أخرجہ البیھقي کان ابن عمر إذا أمّن الناس أمن معہم، ویری ذلک من السنۃ‘‘[2] انتھی
[عبدالرزاق نے ابن جریج کے واسطے سے اس کو موصول بیان کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں نافع نے بتایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب ام القرآن ختم کرتے تو آمین کہتے، وہ جب اس سورت کو ختم کرتے تو آمین کہنا نہیں چھوڑتے اور لوگوں کو آمین کہنے پر ابھارتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ان سے اس سلسلے میں خیر سنی ہے۔ ان کا قول ’’خیر‘‘ کا مطلب ہے فضل اور ثواب۔ یہ روایت کشمیہنی کی ہے اور اس کے علاوہ جو دوسری روایت ہے ’’خبر‘‘ کے لفظ کے ساتھ، تو اس کا مطلب ہے مرفوع حدیث سنی ہے، جیسا کہ بیہقی نے اس کی تخریج کی ہے کہ ابن عمر جب لوگ آمین کہتے تو ان کے ساتھ وہ بھی آمین کہتے
|