’’ان دونوں کا بھی وہی جواب ہے جو پہلے قول کا تھا، یعنی یہ صرف عطاء کا قول ہے، نہ قرآن ہے نہ حدیث۔ علاوہ اس کے بیہقی کی کتاب حدیث کی کتابوں میں گھٹیل ہے۔‘‘
أقول: معترض نے نمبر (۲) میں جو عبارت تعلیقاتِ بخاری کی نقل کرکے سب کو قولِ عطا قرار دیا ہے، وہ اس کی جہالت ہے، کیونکہ وہ عبارتِ بخاری چار اثروں پر مشتمل ہے:
اثر اول: قول عطاء یعنی ’’قال عطاء: آمین دعاء‘‘
اثر دوم: عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی جس کو عطاء نے ابن زبیر سے روایت کیا۔
اثر سوم: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی۔
اثر چہارم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی۔
اب میں پورے روایات ان چار اثروں کے نقل کرتا ہوں ، تاکہ لوگ تلبیس ابلیس سے بچیں ۔
سنو کہ اثر اول و دوم و سوم کوعبدالرزاق نے مصنف میں روایت کیا ہے، جیسا کہ کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری میں :
’’وصلہ عبد الرزاق عن ابن جریج عن عطاء قال: قلت لہ: أکان ابن الزبیر یؤمن علی إثر أم القرآن؟ قال: نعم، ویؤمن من وراء ہ حتی أن للمسجد للجۃ، ثم قال: إنما آمین دعاء، قال: وکان أبو ھریرۃ یدخل المسجد و قد قام الإمام فینادیہ فیقول: لا تسبقني بآمین‘‘[1] انتھی
[ عبدالرزاق نے ابن جر یج کے واسطے سے اس کی روایت کی ہے اور وہ عطاء کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ابن زبیر ام القرآن کے بعد آمین کہتے تھے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں ، اور وہ لوگ بھی آمین کہتے تھے جو ان کے پیچھے ہوتے تھے، یہاں تک کہ مسجد میں ایک گونج پیدا ہوتی تھی۔ پھر فرمایا کہ آمین تو صرف ایک دعا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے، درآں حا لیکہ امام کھڑا ہوتا تو وہ اس کو پکار کر کہتے کہ آمین کہنے میں مجھ پر سبقت نہ کرو۔ ختم شد]
اور بھی اثر سوم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بیہقی نے روایت کیا ہے، جیسا کہ فتح الباری میں ہے :
’’وقد جاء عن أبي ھریرۃ من وجہ آخر أخرجہ البیھقي من طریق حماد
|