اور فرمایا:
{ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} [النساء: ۵۹]
[فرمانبرداری کرو! للہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی]
وجواب وجہ سوم کا یہ ہے کہ عطاء نے چند شخصوں کو نہیں دیکھا، بلکہ دو سو صحابہ کو دیکھا کہ آمین کو بالجہر کہتے تھے۔ پس اطلاق چند شخصوں کا دو سو آدمی پرسوائے تعصب اور نفسانیت کے کس چیز پر حمل کیا جاوے؟ اجی حضرت آمین بالسرکو آپ بیس صحابہ سے بھی نہیں ثابت کرسکیں گے۔ پچیس اور پچاس اور ستر تو درکنار رہے، اگر روایات آپ کے پاس ہوں تو لائیے۔ بر تقدیر صحت علی الراس والعین ہے، ورنہ شرمائیے اور پھر ایسا نام نہ لیجیے!!
قولہ: حدیث نمبر ۲ :
’’قال عطاء: آمین دعاء، وأمّن ابن الزبیر ومن وراہ حتی أن للمسجد للجۃ، وکان أبو ھریرۃ ینادي الإمام: لاتسبقني بآمین، وقال نافع: کان ابن عمر لا یدعہ ویحضہم، وسمعت في ذلک خبرا ‘‘ رواہ البخاري[1]
[عطاء نے کہا آمین دعا ہے۔ ابن زبیر اور ان کے پیچھے جو لوگ تھے، انھوں نے آمین کہا،یہاں تک کہ مسجد میں گونج پیدا ہوئی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے امام کو پکار کر کہا کہ آمین کہنے میں مجھ پر سبقت نہ کریں اور نافع نے کہا کہ ابن عمر اس کو چھوڑتے نہیں تھے اور ان کو ابھارتے تھے اور میں نے اس سلسلے میں ایک خبر سنی ہے۔ اس کی روایت بخاری نے کی ہے]
حدیث نمبر ۳ :
’’عن عطاء: أدرکت مائتین من الصحابۃ في ھذا المسجد إذا قال الإمام ولا الضالین۔ سمعت لہم رجۃ بآمین‘‘[2] رواہ البیھقي
[ عطاء کے واسطے سے مروی ہے کہ میں نے اس مسجد میں دو سو صحابہ کو پایا کہ جب امام { وَلَا الضَّآلِیْنَ} کہتا تو میں نے ان کو گونج کے ساتھ آمین کہتے ہوئے سنا۔ اس کی روایت بیہقی نے کی ہے]
|