بے دلیل بات ہے۔‘‘ انتہی۔ پس ہماری طرف سے بھی یہی جواب ہے۔
دوم: احادیث صحیحہ و آیات قرآنیہ کے مقابلے میں عطاء کا قول کیا وقعت رکھتا ہے ؟
سوم: عطاء نے باوجود یکہ بے شمار صحابہ کو دیکھا، ان میں سے صرف چند شخصوں کو آمین پکار کر کہتے دیکھنا صریح دلیل ہے اس بات پر کہ اور صحابہ آمین پکار کر نہیں کہتے تھے۔‘‘
أقول: جواب وجہ اول کا یہ ہے کہ عطاء کا یہ جملہ کہ ’’أدرکت ما ئتین من الصحابۃ‘‘ یہ تو صحابہ کے حال کی حکایت ہے۔ یعنی عطاء نے جس طور پر صحابہ کو آمین کہتے سنا، اس کی حکایت کی اور اجتہاد کو اس میں دخل نہیں ۔ بخلاف اس قول عطا کے کہ آمین دعا ہے، اس میں اجتہاد کو دخل ہے، کیونکہ عطا کے اجتہاد میں آمین کا دعا ہونا مرجح ٹھہرا ہے۔ پس حکایتِ احوال کو امر اجتہاد پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔
پس آپ کا خصم آپ کو کہہ سکتا ہے کہ ہم اس اجتہاد کو عطاء کے بغیر دلیل نہیں مان سکتے ہیں ، بخلاف امر حکایت و اخبار کے کہ اس کے قبول کرنے سے نہ مجھ کو چارہ ہے نہ آپ کو، کیونکہ اس حکایت و خبر کے قبول نہ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ مخبر اور حاکی اس کا کاذب ہے اور جب کہ اس مخبر کی صداقت تسلیم کی جا چکی ہے تو اس کی خبر کی صداقت ضرور تسلیم کرنا پڑیگی، بخلاف اجتہاد کسی صادق ثقہ کے کہ بغیر برہان حجت نہیں ۔ افسوس کہ آپ کو اس قدر بھی فرق نہیں معلوم ہو ا۔
بہ بین تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا[1]
اور یہ عطاء وہ شخص ہے کہ جس کی شان میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں نے نہیں ملاقات کی کسی سے کہ وہ افضل ہو عطاء سے۔[2] اور روایت کی ہے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے عطاء سے بہت سی حدیثیں ، منجملہ ان کے پچیس حدیثیں مسند امام اعظم میں ، جو بروایت حصکفی ہے، موجود ہیں ۔ عبارت اس کی یہ ہے : ’’ذکر إسنادہ عن عطاء بن أبي رباح‘‘
اور بعد اس کے عطاء کی پچیس حدیثیں ہیں کہ جو امام نے ان سے روایت کیں ۔ نقل اس کی موجب طوالت ہے۔
|