أقول: سبحان اللہ! آپ نے ساری احادیث بالجہر کے رواۃ کے بیان میں ایسی ایسی تحریفیں کیں اور خلاف دیانت باتیں لکھیں کہ اگر دنیا بھرکے الفاظ مذمومہ آپ کی شان میں استعمال کیے جائیں تو بجا ہے۔ اب سب کید آپ کا کھول دیا گیا۔ ازراہ انصاف آپ اپنے اس جھوٹے دعوے پر اس قدر نازاں ہیں کہ اس کی تصدیق کرلینے کو ارشاد فرماتے ہیں ۔ اجی حضرت! اگر تلامذہ حضرت شیخ امام المحدثین۔ أدام اللّٰه فیوضہ علی رؤس الطالبین۔ کے آپ کو ہم کلام و مخاطب اپنا کریں تو فخر سمجھیے، اور ایک ایک تلامذہ حضرت شیخ کے ایسے ایسے نقاد ہیں کہ کھرے کو کھوٹے سے پہچان لیتے ہیں ، وہ ایسے ایسے خفیف امور میں حاجت استفسار کی اپنے شیخ علامہ سے نہیں سمجھتے۔
قولہ: تکملہ ہم وہ باقی دس حدیثیں کہ جو محی الدین نو مسلم نے جہر آمین کے ثبوت میں ذکر کی ہیں ، بیان کرکے ان سے استدلال پکڑنا درست ثابت کرتے ہیں ، تاکہ محی الدین کے مریدوں کے دلوں میں ارمان نہ رہ جائے اور ان کی زنبیل میں جو کچھ ہے وہ اگل پڑے۔
أقول: آپ کے اور آپ کے ہم مشربوں کی زنبیل میں جو شے کہ تھی وہ اگل ہی پڑی، اب اچھلنے کودنے سے کیا ہوتا ہے ؟ اور ابطالِ استدلال آپ تو کیا کرسکیں گے، اگر آپ کے سارے ہم مشرب اکٹھا ہوجاویں جب بھی نہیں ہوسکتا ہے۔
قولہ: حدیث نمبر ۱ :
’’عن عطاء رضی اللّٰه عنہ قال: أدرکت مائتین من الصحابۃ إذا قال الإمام: ولا الضالین۔ رفعوا أصواتھم بآمین، رواہ البیھقي وابن حبان في صحیحہ‘‘
[عطا کے واسطے سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے دو سو صحابہ کو پایا ہے جو آمین بالجہر کہتے تھے اس وقت جب امام ’’ولا الضالین‘‘ کہتا تھا۔ اس کی روایت بیہقی نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں کی ہے]
’’اس کا جواب چند وجہ سے ہے:
اول: تو یہ اسی عطاء کا قول ہے کہ جس کو خود محی الدین نے آمین کے دعا ہونے میں رد کردیا۔ قولہ صفحہ (۱۷۴): ’’اورآمین کا دعا ہونا نہ قرآن سے ثابت اور نہ حدیث سے۔ صرف عطا تابعی کے قول سے ثابت ہے اور وہ لائق اعتبار اور قابل حجت پکڑنے کے نہیں ، کیونکہ
|