متعلق ساتھ متن و اسناد کے ہیں ترجیح ثابت ہو تو وہ مرجح ٹھہرے گی اور اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو تو وہاں پر احد الحدیثین کے عمل سے توقف کرنا ہوگا، تاوقت ترجیح کے۔
جیسا کہ کہاحافظ ابن حجر نے ’’شرح نخبۃ الفکر‘‘ میں :
’’ثم المقبول إن سلم من المعارضۃ أي لم یأت خبر یضادہ فھو المحکم، وأمثلتہ کثیرۃ، وإن عورض فلایخلو إما أن یکون معارضہ مقبولا مثلہ أو یکون مردودا، و الثاني لا أثر لہ لأن القوي لا یؤثر فیہ مخالفۃ الضعیف، و إن کانت المعارضۃ بمثلہ فلا یخلو إما أن یمکن الجمع بین مدلولیھما بغیر تعسف أو لا، فإن أمکن الجمع فھو النوع المسمی بمختلف الحدیث، وإن لم یمکن الجمع فلا یخلو إما أن یعرف التاریخ أو لا، فإن عرف وثبت المتأخر بہ أو بأصرح منہ فھو الناسخ والآخر المنسوخ، وإن لم یعرف التاریخ فلا یخلو إما أن یکون ترجیح أحدھما علی الآخر بوجہ من وجوہ الترجیح المتعلقۃ بالمتن أو بالإسناد أو لا، فإن أمکن الترجیح تعین المصیر إلیہ وإلا فلا۔۔۔ فالترجیح إن تعین، ثم التوقف عن العمل بأحد الحدیثین، والتعبیر بالتوقف أولی من التعبیر بالتساقط، لأن خفاء ترجیح أحدھما علی الآخر إنما ھو بالنسبۃ للمعتبرمع احتمال أن یظھر لغیرہ ما خفي علیہ‘‘[1] انتھی ملخصاً
[پھر جو مقبول روایت ہے، اگر وہ معارضے سے محفوظ ہو۔ یعنی کوئی خبر اور حدیث اس کی مخالفت میں نہیں آئی، تو ایسی حدیث محکم ہے اور اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ اگر اس کی مخالفت میں کوئی دوسری بھی آگئی تو مخالفت میں آنے والی حدیث کی بھی صرف دو ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت: یا تو مخالفت میں آنے وا لی روایت اور حدیث بھی اس کی طرح مقبول درجے ہی کی ہو۔ دوسری صورت: یا پھر مخالفت میں آنے والی روایت اور حدیث مقبول درجے کی نہ ہو، بلکہ مردود ہو۔ اگر مقبول روایت کی مخالفت میں کوئی ضعیف حدیث یا مردود روایت آگئی تو اس کے آجانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ قوی اور
|