معارضہ ہوا۔ پس بحکم قاعدہ مسلمہ ’’إذا تعارضا تساقطا‘‘ بوجہ تعارض حدیث نمبر اول و نمبر سوم و نمبر ہفتم ساقط الاعتبار ہوگئیں ، ان سے استدلال کرنا درست نہیں رہا۔‘‘
أقول: حدیث وائل بن حجر کی جس کو شعبہ نے بلفظ ’’أخفی بھا صوتہ‘‘ روایت کیا ہے، اس کو صلاحیت معارضہ کی ساتھ ان احادیث صحیحہ کے جن میں لفظ ’’رفع بھا صوتہ‘‘ کا آیا ہے، نہیں ہے۔ کیونکہ معارضہ کے لیے مساوات شرط ہے اور اوپر ثابت ہوچکا کہ حدیث شعبہ بلفظ ’’أخفی بہا صوتہ‘‘ مرجوح اور شاذ ہے۔ پس حدیث مرجوح اور شاذ حدیث راجح کی کیو ں کر معارض پڑے گی؟ اس لیے کہ مخالفتِ حدیث ضعیف، حدیث صحیح میں مؤثر نہیں ہوتی۔
اور بر تقدیر تسلیم صحتِ حدیث اسرار آمین کے توفیق بین الاحادیث اس طور پر دی جاوے گی کہ بسا اوقات آپ نے جہر کیا اور بسا اوقات اسرار کیا اور یہ بر تقدیر ثبوت احادیث سر یہ کے ہے، اور حال یہ ہے کہ مرفوعاً بسند صحیح ثابت نہیں ، پس وہی جہر متعین رہا۔
اور قاعدہ مسلمہ ’’إذا تعارضا تساقطا‘‘ کو اپنے گھر میں رکھ چھوڑیے۔ ادلہ شرعیہ میں یہ قاعدہ جاری نہیں ہوسکتا، بلکہ اطلاق تساقط کا ادلہ شرعیہ پر دریدہ دہنی اور بیہودہ گوئی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں کارخانہ دین کا درہم برہم ہوجائے گا۔ اسی واسطے ائمہ محدثین رضوان اللہ علیہ اجمعین نے اس کے لیے قواعد و اصول مقرر کر دیے ہیں ۔ خلاصہ ان کے قواعد مقررہ کا یہ ہے کہ حدیث مقبول جو ایک قسم ہے حدیث کی اگر سالم ہے معارضہ سے، یعنی کوئی حدیث اس کی مخالف نہ ہو تو اس کو محکم کہتے ہیں اور اگر کوئی اس کا معارض ہو تو اتنی صورتوں سے خالی نہیں ، یا معارض اس کا مقبول ہوگا مثل اس کے، یا معارض اس کا مردود ہوگا، بر تقدیر ثانی مخالفت حدیث ضعیف کی اثر نہ کرے گی حدیث صحیح میں ، اور بر تقدیر اول یعنی معارض اس کا مثل اس کے مقبول ہو، پس اگر توفیق و تطبیق درمیان ان کے ممکن ہو بغیر تکلف و تعسف کے تو اس کو ’’مختلف الحدیث‘‘کہتے ہیں ۔
اور اگر توفیق ممکن نہ ہو پس دو حالتوں سے خالی نہیں :
اول: یہ کہ تاریخ معلوم ہو، یعنی ثابت ہو جائے کہ حدیث متاخر کون سی ہے اور حدیث متقدم کون؟ پس حدیث متاخر کو ناسخ اور متقدم کو منسوخ کہتے ہیں ۔
دوم: یہ کہ تاریخ معلوم نہ ہو، پس اس صورت میں اگر کسی وجہ سے بھی منجملہ وجوہاتِ ترجیح جو
|